اسلامی ہجری سال کے پہلے مہینے کا نام محرم
ہے جس کے معنی معظم ہیں یعنی عظمت ، حرمت، شان، فضیلت اور احترام والا
مہینہ لفظ محرم کے ساتھ الحرام بھی لکھا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ملت
ابراہیمی میں چار مہینوں جن میں محرم،رجب،ذالقعداور ذوالحجہ کو خاص حرمت
عطا فرمائی ہے۔اس طرح اسلامی سال کا آغازواختتام حرمت والے مہینوں سے ہوتا
ہے۔عرب کے لوگ اسلام سے قبل بھی ان چار مہینوں کا احترام کرتے تھے۔اسی طرح
دیگر آسمانی مذاہب میں محرم الحرام اور اس کی دس تاریخ کو خاص اہمیت حاصل
تھی۔احادیث سے ثابت ہے کہ یہودونصاریٰ بھی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے
تھے۔حضور نبی کریم ﷺنے بھی محرم الحرام اور خصوصادس محرم کے دن کی خاص
فضیلت بیان فرمائی ہے۔آپﷺنے دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام سے بھی
رکھوایا۔اس دن کے حوالے سے کچھ اہم واقعات بھی لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں
کہ دس محرم کو اﷲ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی،دس محرم
کو حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام بلند کی طرف اٹھا لیا،اسی دن حضرت نوح
علیہ السلام کی کشتی جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی،اسی روز حضرت ابراہیم
علیہالسلام کی ولادت ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنایا اور
انہیں اسی روز نار نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا،دس محرم کو حضرت داود علیہ
السلام کی توبہ اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی،اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام
کو حکومت واپس ملی،اسی روز حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف کو دور
فرمایا،دس محرم کو ہی اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سلامتی سے
سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا ،اسی روز حضرت یعقوب علیہ
السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کے لیے دریا میں راستہ اسی دن
بنایا گیا،اسی دن عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا،یہی دن تھا
جب حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی گئی،اسی دن
زمین پر پہلی بارش نازل ہوئی اور حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے
گی۔اﷲ کے رسول ﷺنے ہجرت سے پہلے دس محرم کا روزہ رکھا اور نبی کریمﷺکا
فرمان ہے کہ جس شخص نے اس دن کا روزہ رکھا تو وہ چالیس سال کا کفارہ
ہوگا۔اس دن نواسہء رسول ﷺحضرت امام حسین نے وہ عظیم قربانی دی جس کو قیامت
تک اہل ایمان یوم عاشور ہ کے دن یعنی دس محرم الحرام کو اﷲ اور رسولﷺاور آپﷺآل
پاک پرکروڑوں درود وسلام کا انتہائی عقیدت و احترام سے نذرانہ پیش کرتے
رہیں گے۔حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ3شعبان سنہ4ہجری کو مدینہ میں
پیدا ہوئے ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے آپ کا نام حرب رکھا مگر نبی کریم ﷺ نے
بدل کر حسین کر دیا ۔آپ اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک
سال چھوٹے تھے۔آپ کی کنیت ابو عبداﷲ اور لقب ابوالمساکین تھا۔آپ کے بارے
میں حضور ﷺنے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔آپ کی عمر مبارک
چھ برس تھی جب آپ کے نانا آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺنے دنیا سے پردہ
فرمایا۔حضور ﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سے انتہائی محبت تھی ۔اپنی زندگی ہی
میں آپ ﷺنے دردناک انداز میں اپنے نواسے حضرت امام حسین کی شہادت کی خبر
ارشاد فرمائی۔حضور ﷺکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد شیخین کریمین حضرت ابو
بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہمابھی ان دونوں شہزادوں بے
حد احترام کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت
کے موقع پر اپنے والد گرامی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے حکم پرحسنین کریمین
حضرت عثمان کی حفاظت کے لیے ان کے دروازے پر پہرہدار تھے۔ حضرت علی کرم اﷲ
وجہہ اور حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ اپنے والد
گرامی اور برادر اکبر کے ہمراہ مطیع و فرمان بردار رہے۔ برادر اکبر کی حضرت
امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے صلح کے بعد ان کے دور حکومت میں آپ مدینہ
کے اندرگوشہ نشین رہے اور زہد وعبادت،تعلیم وتربیت اور خدمت خلق میں مصروف
رہے۔یزید جب تخت پر بیٹھاتو اس نے عامل مدینہ کو حکم دیا کہ زبردستی حضرت
امام حسین اور ان کے رفقاء سے بیعت خلافت لی جائے ۔حضرت امام حسین شر سے
بچنے کے لیے مکہ تشریف لائے اسی اثناء میں اہل کوفہ نے بوریوں کی بوریاں آپ
کو خطوط لکھے اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔آپ نے حالات جاننے کے لیے حضرت
مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجاتو ان کی طرف سے بھی حوصلہ افزا پیغام آیاچنانچہ
آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔آپ کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر جید صحابہ
حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے انہیں روکنے کی
کوشش کی مگر امام حسین راہ حق کے مسافر تھے رکنے کو تیار نہ ہوئے اور حرمت
مکہ کے پیش نظر بھی وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ راستے میں آپ کو حضرت مسلم
بن عقیل کی مظلومانہ شہادت اور اہل کوفہ کی بے وفائی کی خبر ملی مگر آپ نے
سفر جاری رکھا۔کوفہ کے قریب میدان کربلا میں یزیدی گورنر کوفہ ابن زیاد کے
ایک سالار عمر بن سعد نے گورنر کے حکم پر آپ کا رستہ روک لیا۔ابتدا میں آپ
نے مسلمانوں کے درمیان خوں ریزی سے بچنے کی کوشش کی اور اپنی تجاویز پیش
کیں مگر اہل کوفہ بے وفائی پراور یزیدی فوج آپ کو قتل کرنے پر تلی بیٹھی
تھی لہذا آپ کی کسی تجویز کو قبول نہ کیا گیا تو پھر آپ نے بھی باطل کے
سامنے جھکنا اور دبنا قبول نہ کیا اور ہمت و استقامت کے ساتھ حالات کا
سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ہفتہ عشرہ مصائب کا سامنا کرنے کے بعد
10محرم الحرام61ہجری میں باقاعدہ فوج کے ساتھ مٹھی بھر جانبازوں کے مقابلے
کی نوبت آ پہنچی ۔ابتدا میں مبارزت چلتی رہی پھر ہجوم کر کے آپ پر حملہ کر
دیا گیا اور چشم فلک نے یہ حیران کن،الم ناک اور خون فشاں منظر دیکھا کہ
نبی ﷺکے امتی کہلانے والوں نے اپنے نبی کے عزیز ترین نواسے کوحق پرستی کے
جرم میں خاک و خوں میں تڑپا ڈالا۔نبی کریمﷺکا فرمان ہے میں حسن اور حسین سے
محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی
محبت فرما۔واقعہ کربلا اور شہادت حسین لکھتے ہوئے ،پڑھتے ہوئے اور بولتے
ہوئے جو کیفیت کسی مسلمان کی ہوتی وہ بیاں سے باہر ہے ۔وہ کیا ہی خوب شعر
ہے کہ
حسین کے ذکر سے جو بھی جلتا ہے محسن
انسانیت کی زباں میں اسے یزید کہتے ہیں
عجیب شہادت تھی حسین کی جو رہتی دنیا تک راہ حق کے ہر مسافر کے ماتھے کا
جھومر بنے گی۔لفظ سارے کھو جاتے ہیں جیسے لکھنے کو کچھ بچا ہی نہ ہو۔
افضل ہے کل جہاں سے گھرانہ حسین کا
نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسین کا
اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا
اے اﷲ تو گواہ رہنا ہم حسنین کریمین سے،اپنے نبی کے نواسوں سے ،حضور ﷺکے
پھولوں سے اور نوجوانان جنت کے سرداروں سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان
اہل محبت میں شامل فرما جن سے تو محبت کرتا ہے۔محرم الحرام عظمتوں والا
مہینہ ہے ۔اس کی ابتدا و انتہا پر غور ہر مسلماں کو کرنا چاہیے اسے صرف
ماتم تک محدود نہیں کیا جا سکتا ۔اور اسی ماہ ابتدا ہے اور اسی ماہ انتہا
بھی ہو گی اﷲ پاک ہمیں سوچنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائیں ۔ |