واہ حسینؓ تیرے صبر کو سلام

دنیا کوحضرت امام حسین ؓ نے ورطہ ٔ حیرت میں ڈال رکھا ہے دنیا میں شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے والا ہر انسان محوتجسس ہے کہ نواسہ ٔ رسولﷺ ،جگر کوشہ ٔ بتولؓ سیدنا امام حسین ؓ صبر کے کس عظیم مقام پر فائز تھے ؟جس کا ادارک آج تک عقلمندوں،سکالروں،دانشوروں،ارباب علم ودانش کو نہ ہوسکا ،دنیانے تو آج تک یہ دیکھا کہ کسی کے خاندان کے دو چار افراد داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ دیں تو اس خاندان پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے،لواحقین حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔لیکن کرب وبلا کی وادی میں پیکر صبر ورضا امام حسین ؓ نے اس قدر صبر کا مظاہرہ کیا کہ ایک، دو، تین، چار،پانچ،دس،بیس نہیں بہتر لاشے بڑے اطمینان سے اٹھا اٹھا کر خیمے میں رکھے اور خود بڑی شان جلالی کے ساتھ میدان کارزار میں باطل سے ٹکرانے کیلئے اترنے سے پہلے بڑے اطمینان سے اہل بیتؓ کی مقدس خواتین ؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد میں بھی اپنے شہداء کی طرح شہید ہوکر اپنے ناناﷺ کے پاس سرخ رو ہوکر پہنچ جاؤں گا مگر خیال رکھنا شریعت مصطفی ﷺ سے روگردانی کرتے ہوئے ماتم نہ کرنا ،نوحہ خوانی پر نہ اتر آنا،اپنے بالوں کو نہ نوچنا،پردے کا خیال رکھنا تم ناموس مصطفیٰ ﷺ ہوصبر کا دامن تھامے رکھنا تا کہ مورخ جب قلم اٹھائے تو یہ لکھنے پر مجبور ہوجائے کہ 72 تن شہید کروا کر بھی خاندان رسولﷺ کی پاک عورتوں نے شریعت مصطفیٰ ﷺ کو مقدم رکھا "میدان کارزار میں جانے سے پہلے ز بان حال میں اﷲ کی بارگاہ میں امام ؓ صدق دل کے ساتھ التجائے دعا تھے کہ " اے رب رحیم وکریم !یہ قربانی میں ،میرے اہل خانہ اور جاں نثاروں نے تیری بارگاہ میں پیش کی ،اسے قبول فرما"میرا وجدان کہتا ہے کہ" امام حسینؓ نے اﷲ کے دربار میں فرمایا ہوگا کہ اے میرے رب کریم !یہ وہی قربانی ہے جس کی ابتداء ہمارے جدامجد سیدنا ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے کی تھی جس قربانی کی آرزو میرے نانا نبی ٔ آخر الزماں ﷺ نے کی تھی ہم نے پوری کردی اسے شرف قبولیت بخش کر میرے نانا ﷺ تک یہ پیغام پہنچا دے کہ تیرے نواسے حسینؓ نے معر کہ ٔ حق وباطل بپا کرکے انسانوں کو انسانوں کا غلام بنانے والے یزید اور اس کے لشکر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شکست فاش دے دی ہے" ۔اب کوئی بھی مسلمان اپنے بچے کا نام یزید یا شمر نہیں رکھے گا۔اﷲ رب العزت کی قدرت کے فیصلے پر قربان جاؤں اما م حسین ؓ کے قاتلوں کے نام تو وہ لوگ بھی اپنے بچوں کے نام پرنہیں رکھتے جو چھپ چھپ کر یزید کی حمایت کرتے ،یہ کہتے نہیں تھکتے کہ امام حسین ؓ حق پر نہیں ،یزید ہی خلیفہ ہے ۔۔۔۔۔ (نعوذ باﷲ من ذالک)۔اس سے بڑی امام ؓ کے قاتلوں کی رسوائی اور کیا ہوگی ؟میں بڑی جرأت کے ساتھ یزید کے حمایتیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم یزید کے حمایتی ہو توتم سب سے پہلے اپنے سارے اشکالات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بچوں کے نام قاتلین شہدائے کر ب وبلا ؓکے نام پر رکھ کر تو دکھاؤ ۔۔۔اگر محمد عربی ﷺ کی امت نے تمہارا حقہ پانی بند نہ کردیا تو کہنا۔۔۔۔۔(یہ جملے میں کبھی نہ لکھتا اگر راقم کو گم نام درجنوں خطوط موصول نہ ہوتے تو) ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ جس (امیرالمومنین حضرت معاویہ بن سفیانؓ )سے امام حسن ؓ کی صلح اس سے ہماری صلح اور جس (یزید ) سے امام حسین ؓ کی جنگ اس سے ہماری بھی قیامت تک جنگ جاری رہے گی۔ان سفاک قاتلوں کی آخرت کا معاملہ تو اﷲ کی عدالت میں پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔دنیا کی رسوائی کو اگر یزید کے حمایتی دیکھ کر حقیقت سمجھ جائیں توان کیلئے ہدایت کی سبیل نکل سکتی ہے ۔

امام حسین ؓ کے صبر کو دیکھ کر میں تخیلات کی دنیا میں جاکر روح امام عالی مقام ؓ سے سوال عرض گذار ہوں کہ " اے امام ذی وقار،جنتی نوجوانوں کے سردار سیدناامام حسین ؓ ہمیں یہ تو بتائیے کہ صبر کا یہ مقام آپ ؓ نے کہاں سے حاصل کیا؟" توسیدنا امام حسین ؓفرماتے ہیں کہ " کیا تم کو معلوم نہیں کہ میرے نانا کو اسلام کی تبلیغ کیلئے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟ مکہ وطائف والوں نے میرے ناناﷺ کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟رب کائنات کی غیرت جلال میں آگئی تو پہاڑوں کے فرشتوں کو بھیج دیا کہ میرے محبوب ﷺ سے پوچھو اگر وہ چاہیں تو پہاڑوں کو آپس میں ملا کر ان کو تہس نہس کردیتے ہیں،لیکن میرے ناناﷺ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،سمعیہ ؓ کے دو ٹکڑے کردئیے گئے مگروہ حق پر ڈٹی رہیں ،زنیرہ ؓ کی آنکھوں کو نکال دیا گیا مگر حق کو نہ چھوڑا،بلالؓ کو تپتے انگاروں پر لٹا کر ستایا گیا مگر بلالؓ نہ بدلا،خبیبؓ کو تپتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا مگر باطل ان کا سر نہ جھکا سکا،میرے نانا ﷺ کی مسجد کے مصلے پر امام عدل وحریت سیدنا فاروق اعظم ؓ کو شہید کردیا گیا مگر مسلمان حق سے دستبردار نہ ہوئے،مظلوم مدینہ خلیفہ ٔ سوم ،پیکر شرم وحیاء،دہرے داماد پیغمبر ﷺ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کو مظلومانا انداز میں ہمارے ہوتے ہوئے شہید کردیا گیالیکن وہ ؓ حق کی راہ پر گامزن رہے ،بے وفاؤں کے شہر کوفہ میں میرے بابا حیدر کرارؓ کو کوفیوں نے شہید کردیاقافلہ ٔ حق نہ رکا،کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہماری تاریخ ہی صبر سے بھری پڑی ہے ،مجھے ان عظیم ہستیوں سے صبر کاگوہرنایاب وراثت میں ملا ہے ۔میں کرب وبلا کی وادی کے تپتے ہوئے صحرا میں شہادت پیش کرکے محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں کو پیغام حق دے کر جارہا ہوں کہ اسلام قربانی کا تقاضا کرتا ہے ہردور میں قربانی کا تقاضا کیا جاتا رہے گا جو صبر ،رضائے الہٰی کیلئے خود کو پیش کردے گا اﷲ تعالیٰ اسے دنیا کوآخرت میں کامیابی کا پروانہ عطاء کریں گے ۔

صبر حسین ؓ نے دنیا میں حق وباطل کی ایک لکیر کھینچ دی ہے کہ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو اسلام کا نظام عدل وقسط "نظام خلافت"ہو نا لازم وملزوم ہے اگر زمین پر اﷲ کا نظام نہیں تو حسین ؓ کا عمل بتا رہا ہے کہ اسلام نامکمل ہے جس کی تکمیل کیلئے کر ب وبلا سجائی گئی اہل بیت ؓکے مقدس خون سے گلشن اسلام کی آبیاری بقائے نظام خلافت کیلئے دینا نواسہ ٔ رسول ،جگر گوشہ ٔ بتولؓ امام حسین ؓ کی سنت عظیم ہے جسے ادا کرنا کرہ ارض کے ساٹھ کے قریب مسلم ممالک کے حکمرانوں اورمسلمانوں پر فرض عین ہے ۔

اے دنیا کے مسلمانو! انصاف سے فیصلہ کرو کہ کیا آج روئے زمین پر یزیدیت کا دور دورہ عام نہیں۔۔۔۔۔۔؟ اگر ہے۔۔۔ہاں یقیناً ہے تو پھر خاموش کیوں کھڑے ہو؟امام حسینؓ کی جرات سے سبق سیکھتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑو تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو عظمت رفتہ حاصل ہوجائے ۔امام حسین ؓ نے تمہیں عظمت رفتہ کا مقام دلانے کیلئے ہی تو اہل بیت عظامؓ کے ہمراہ کرب وبلا کے میدان میں لازوال قربانی دی تھی۔آج اسی جذبے کا تقاضا شہدائے کربلاؓ کی روحیں کر رہی ہیں۔اے دنیا کے انسانو،مسلمانو!آگئے بڑھو دنیا میں پھیلتی ہوئی یزدیت کے سامنے حسینی بن کر سینہ سپر ہوجاؤ ۔اﷲ کا وعدہ ہے کہ غالب تم ہی آؤ گے اگر تم مومن ہوئے تو۔۔۔۔۔ آنکھیں،دل ودماغ کھول کر دیکھو کرب وبلا کے سانحہ عظیم سے لیکر آجتک دنیا کرب وبلا کا فاتح کس کو قرار دے رہی ہے ۔۔۔۔۔۔؟ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔ ذرہ تم بھی کہہ دو کرب وبلا کا فاتح نواسہ ٔ رسولﷺ،جگر گوشہ ٔ بتول سیدنا امام حسین ؓ ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان۔

میرا ایمان ہے کہ قیامت کی صبح تک امام حسین ؓ کے صبر اور ان کی فتح وکامیابی کا اقرار مسلمان اور کافر سب کرتے رہیں گے ۔آخر کار جب فلسفہ ٔ شہادت امام حسین ؓ جس کو سمجھ آئے گا تو وہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ "واہ حسینؓ تیرے صبر کو سلام"
 

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244681 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.