بھارت میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی سازش ایک ایسی پالیسی
کوبنا کر کی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے. جس پر نہ تو کسی
افسر کے دستخط ہیں اور نہ ہی اسے کسی ایکٹ یا دستور العمل کے تحت بنایا گیا
ہے. جس پرنٹ میڈیا اشتہارات پالیسی -2016 کو لاگو کرنے کے لئے روزانہ ڈی اے
وی پی کی طرف سے ایڈوائزری جاری کی جاتی ہے، اس کا بھی کوئی وجود نہیں ہے.
ایک سنک کے تحت روزانہ ہی نئی نئی ایڈوائزری جاری کرکے میڈیا کے ایک طبقے
کو پریشان کیا جا رہا ہے، اور ڈی اے وی پی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہاں کے
افسران ڈیپریشن کے شکار ہیں.اسی لئے اس کی مخالفت میں اتر پردیش کی ریاست
ہیڈکوارٹر منظور شدہ پریس کمیٹی نے اپنے تمام ساتھیوں، صحافی برادری اور ان
غذائی اخبار مالکان اور پبلشرز کے مفاد میں فیصلہ لیا ہے کہ اطلاعات و
نشریات کی وزارت حکومت ہند کی طرف سے کئے جا رہے ظلم اور سوتیلے رویئے کے
تحت نافظ کی گئی پرنٹ میڈیا اشتہارات پالیسی- 2016 کی مخالفت کرتے ہوئے
اطلاعات و نشریات کے وزیر کو شکایت اور تجویز منتقل کیا جائے اور پندرہ
دنوں کے اندر اگر آئین کے آرٹیکل -14 میں دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی کو
اطلاعات و نشریات کے وزیر کی طرف سے روکا نہیں جاتا اور مذکورہ غیر قانونی
پالیسی -2016 کو منسوخ نہیں کیا جاتا ہے تو معزز سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی
جائے، کیونکہ پرنٹ میڈیا کو اسٹریم لائن کرنے کے نام پر اطلاعات و نشریات
کی وزارت نے جس پرنٹ میڈیا اشتہارات پالیسی -2016(غیر قانوی دستاویزات)
تعمیر کیا ہے، وہ چھوٹے اور درمیانہ اخبار پبلشرز اور اس میں کام کرنے والے
صحافیوں اور غیر صحافیوں کو کچلنے کی سازش ہے. اسی کے ساتھ اس ریگولیٹری
ایکشن کو پالیسی کا نام دیا جا رہا ہے، جس کی بنیاد میں نہ تو کوئی ایکٹ ہے،
نہ ہی کوئی دستور العمل. یہاں تک کے اس پالیسی پر یہ بھی درج نہیں ہے کہ یہ
حکومت ہندکے کس نوٹیفکیشن کے تحت جاری کی گئی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی
لیٹرکا نمبر یا تاریخ موجودہے.
اگر واقعی اطلاعات و نشریات کی وزارت کو میڈیاکوا سٹریم لائن کرنا ہی ہے تو
اس کے لئے ایکٹ لانے کی ضرورت ہے جس کے تحت دستور العمل پیدا جائے، پھر اس
کے تحت میڈیا کو ریگولیٹ کیا جائے. غیر قانوی طریقے سے میڈیا کے صرف چھوٹے
اور درمیانے سطح کے اخبارات کو ہی ریگولیٹ کرنا کسی بھی طرح سے جائز اور
مناسب نہیں ہے. یہ ایک سازش ہے، جس کے ذریعے دیکھا جا رہا ہے کہ وزارت کتنا
کامیاب ہے، آپنی کرنی میں. کیا اطلاعات و نشریات کی وزارت بتائے گا کہ اس
پالیسی کے ڈرافٹ کو وزیر اعظم کی کابینہ میں رکھا گیا تھا، اگر ہاں تو کس
تاریخ اور کس اجلاس میں ۔اس کا حوالہ تو اطلاعات و نشریات کے وزیر کو دینا
ہی پڑے گا، دوسری صورت میں یہ تو ایک قسم سے ہندوستان کے وزیر اعظم کو بھی
سازش میں شامل کرنے کا معاملہ لگتا ہے.اگر کسی ڈائریکٹوریٹ کے دو افسران
اور حکومت میں بیٹھا سکریٹری سطح کی ایک افسر کسی ڈرافٹ کو پالیسی کی شکل
دے کر اس کی طاقت پر سب کچھ تہس نہس کر دینے کے ارادے رکھتا ہو تو اس کی
منشا ء کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے. اگر ایک پالیسی بنا کر پورے ملک کو چلایا
جا سکتا ہے، تو پھر لوک سبھا، راجیہ سبھا، اسمبلی، قانون سازی کونسل، وزیر
اعلیٰ، گورنر، وزیر اعظم، صدر کے ساتھ ہی ضلع عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ
تک کی ضرورت ہی کیا ہے. پھر تو کسی بھی محکمہ کا کوئی بھی پاگل افسر کوئی
بھی حکم جاری کر دے اور عدالت بھی اسے بغیر کسی ایکٹ-رول کے پرویزن کو
قانونی مان لے، تب تو ہو گیابنٹادھار اس ملک کا. ایسی صورت تو ملک میں
تباہی ہی مچا دے گی، جس کی کوئی تلافی نہ تو وہ نریندر مودی جی کے اقتدار
کر پائے گی، نہ ہی کوئی اورڈی اے وی پی کا قیام میڈیا کا قتل کرنے کے لئے
نہیں کیا گیاتھا، اور وہ بھی محض چھوٹے اور درمیانہ اخبار ۔میگزین کی. بڑے
گروپ (کارپوریٹ میڈیا گھرانوں) کے ایڈیشن کو ملائی چاٹنے اور اس ملائی میں
خود کو بھی حصہ ملتا رہے، اس کاپور اہتمام ڈی اے وی پی نے اسی پالیسی میں
بڑی خوبصورتی سے کر لی ہے. اسی لئے مالک ۔پبلیشرز کے مفاد میں کام کرنے
جرنلسٹ اور اخبار اداروں میں ملازم غیر صحافیوں کی فلاح اس کمیٹی نے لڑائی
لڑنے کا فیصلہ لیا ہے. آخر کار جب اخبارہی نہیں رہیں گے تو ہم کہاں رینگے؟
ہمیں اپنے مالکان کے ساتھ خود بھی زندہ رکھناہے. اس فرضی پالیسی سے مرتا
کیا نہ کرتا والی صورتحال پیدا ہو رہی ہے، جس کے لئے پور ی طرح پر اطلاعات
و نشریات کی وزارت کے ساتھ ڈی اے وی پی کے مسٹرکے گنیشن اور آر۔ سی۔ جوشی
ہی شامل ہونگے، ممکنہ طورپر جوشی جی کتنے ہی بڑے نجومی ہوں، اپنا مستقبل
دیکھنا بھول گئے ہیں.
ڈی اے وی پی کی پالیسی کی مخالفت میں کچھ صحافی ساتھی کورٹ بھی گئے، لیکن
وہ ڈی اے وی پی کی جانب سے پیش وکیل کی اس دلیل (کہ پرنٹ میڈیا اشتہارات
پالیسی کوا سٹریم لائن کرنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے) کا معقول اور منطقی
جواب کورٹ کو نہیں دے پائے کہ یہ پالیسی صرف اشتہارات تقسیم کو اسٹریم لائن
کرنے کے لئے نہیں بنائی گئی ہے، بلکہ چھوٹے اور درمیانہ اخباروں کے مالکان
کو جو کہ کمزور اور اصل میں بڑے تاجرگھرانے نہیں ہیں، نظر انداز کرنے کے
لئے بنائی گئی ہے. اس پالیسی نے تو کارپوریٹ میڈیا گھرانوں کے لئے سرخ
قالین کا کام کیا ہے.
ابھی تک ڈی اے وی پی کے اشتہارات تقسیم انتظام اسٹریم لائن نہیں تھی تو اس
کے لئے کون کون افسر ذمہ دار ہیں؟ ڈی اے وی پی کے حکام کی طرف سے اخباروں
کے منظوری کے لئے لی جا رہی فی اخبار دو دو لاکھ کی رشوت گنیشن سے لے کر
وزارت کے کس افسر اور وزیر تک پہنچ رہی ہے؟ ایسے ایسے اخباروں
کو50-50%کمیشن کی شرح پر اب بھی روزانہ اشتہارات جاری کئے جا رہے ہیں، جن
کی پرنٹنگ پریس کا ہی وجود ہی نہیں ہے. ڈی اے وی پی کے زیادہ تر افسران کے
بیٹے، بیٹیاں، ماں، بھائی، باپ، بہن کے نام پر اخباروں کی اشاعت کیا جا رہا
ہے اور لاکھوں روپے ماہانہ بٹورے جا رہے ہیں.
کیا سب سے پہلے ڈی اے وی پی کو اسٹریم لائن کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ڈی اے
وی پی کے کتنے افسران نے اپنی آمدنی کا اعلان کیا ہوا ہے؟ کیا سی بی آئی یا
ویجلنس کمیشن کی طرف سے ان افسران کی آمدنی کی جانچ نہیں ہونی چاہئے جو
برسوں سے اشتہارات جاری کیے جانے والی سیٹ پر ماہانہ موٹی کمائی مسٹر گنیشن
کو پہنچا رہے ہیں. ڈی اے وی پی کا بابو ایس یو وی کارسے آتا جاتا ہے،
کروڑوں کے اس کے پاس فلیٹ ہیں، اور جس کی ہر شام پانچ ستارہ ہوٹل میں ایسے
ہی مالک ۔ پبلیشرز کے ساتھ گزرتی ہے، جو ان کی شام رنگین بنواتے ہیں.ڈی اے
وی پی کے حالات یہ ہیں کہ وہاں دلالوں کا اڈہ بنا ہوا ہے50-50کی طرز پر
اشتہارات دلانے والی پرائیویٹ کمپنیاں تک قائم ہیں، جو یہاں کے اشتہارات
جاری کرنے والے افسران کو پیسے لے کر لڑکیاں تک دستیاب کراکر کاروبار کر
رہی ہیں. ایسا نظام اپنی آنکھوں سے آپ خود ڈی اے وی پی میں اندر گھس کر
دیکھ سکتے ہیں. جو اس کی مخالفت میں کچھ کرنے-کہنے کی کوشش کرتا ہے، اس سے
کہا جاتا ہے کہ چلے ہو بھگت سنگھ بننے! ارے جیسے اسے پھانسی پر لٹکا دیا
گیا، ویسے تم بھی لٹکا دیے جاؤ گے، ارے جیسا انتظام چل رہا ہے، اسی میں
اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرو، اور مزے کرو. آپ کا اپنا خاندان ہے، کون اس ملک میں
بہتر بنانے آیا ہے جو کرسی پر بیٹھا وہی لوٹ میں لگ گیا. آپ بھی کوئی پارٹی
پکڑ لو اور ڈی اے وی پی سے روزانہ اشتہارات پاؤ. یہ نریندر مودی کا ملک ہے،
یہاں اڈانی اور امبانی جیسے ہی زندہ رہیں گے، ہم تم جیسے نہیں. یہ کہنا ہے،
ڈی اے وی پی میں اشتہارات جاری کرنے والے ایک میڈیا ایگزیکٹیو کا۔
ڈی اے وی پی کے ایسے افسر ملک کے وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی کو بدنام کرتے
ہوئے اپنی پالیسی کوبہتر بتاتے ہوئے کروڑوں کما رہے ہیں. کے گنیشن اس حکومت
کے آنے سے پہلے ہی ڈائریکٹر جنرل کی کرسی پر بیٹھے ہیں، اضافی ڈائریکٹر
جنرل مسٹر ریڈی اور شرما بھی تب ہی سے ہیں اور ڈائریکٹر مسٹر جوشی کو مسٹر
گنیشن، ڈائریکٹر جنرل مقرر ہونے کے بعد لے کر آئے ہیں. ڈی اے وی پی کی
کرپشن میں ان کے آنے کے بعد سے چار گنا اضافہ ہوا ہے.کے گنیشن تو کسی چھوٹے
اور درمیانہ اخبار کے ناشر سے ملنا تو دور ٹیلی فون پر بھی مذاکرات نہیں
کرتے. انکے ذاتی سیکرٹری، بمشکل اگر فون اٹھا لیں تو پہلے پوچھیں گے کہ آپ
کا مسئلہ کیا ہے، اگر آپ نے کہا کہ مسئلہ کوئی نہیں صرف مجھے ان سے ملنا ہے،
تو کہیں گے کہ جب مسئلہ نہیں تو مل کران کا وقت کیوں برباد کریں گے. لہذا
آپ مسئلہ بتائیے، اور آپ نے اگر مسئلہ بتائی تو حل صرف یہی ہے کہ وہ کسی
دوسرے افسر سے ملنے کو کہہ دیں گے. اب بتایئے مجھے شکایت کرنی ہے کہ آپکے
یہاں اشتہارات کی سیٹ پر بیٹھا فلاں افسر کہتا ہے کہ اشتہارات چاہئے تودلال
سے رابطہ کرو، تو اسے کون سنے گا.
کمیٹی کا کہنا ہے کہ میڈیا کوا سٹریم لائن کرنے سے پہلے ڈی اے وی پی کے
ڈائریکٹر جنرل، مسٹر کے گنیشن، اضافی ڈی جی، مسٹر ریڈی اور مسٹر شرما،
ڈائریکٹر مسٹر آر سی جوشی، کی آمدنی سے زیادہ جائیداد کی تحقیقات کی جائے
اور اشتہاراتی نظام سے منسلک ہر افسر ۔ملازم کی طرف سے ہر چھ چھ ماہ میں
آمدنی کا اعلانیہ اس شرط کے ساتھ لیا جائے کہ اگر تحقیقات میں غیرتناسب
آمدنی پائی جائے تو اسے سروس سے برخاست کرنے کے ساتھ ہی اس کی ساری جائیداد
ضبط کرتے ہوئے اس سے دس گنا جرمانہ وصولا جائیگا.اسی کے ساتھ ڈی اے وی پی
میں منظورشدہ تمام اخباروں کے سرکولیشن کی جانچ آر این آئی کے ذریعے کرائی
جائے پھر چاہے اس کی سرکولیشن پانچ ہزار ہو یا پانچ لاکھ. اس کے سرکولیشن
دعووٰں کا ثبوت، ذاتی سی اے نے دیا ہو یا آر این آئی یا اے بی سی نے دیا
ہو۔اے بی سی تونیکسس ہے، کارپوریٹ میڈیا گھرانوں کے ایڈیشن کی، تین سو سے
اوپر سی اے کے گروپ کا، غیر ملکی وجود والی اشتہارات ایجنسی کا۔، غیر ملکی
اشتہارات ڈونر کمپنی (جیسے کوکا کولا، اور آئی ٹی سی) اور نیوز ایجنسی کا.
کیا آپ کو معلوم ہے کہ کس طرح سے اس کوکمپنی ایکٹ کے سیکشن -25 کے تحت
کارپوریٹ کیا گیا ہے؟
یہ مضامین ابھی جاری ہے ۔آگے انتظار کریں!
|