ایم شفیع میر
دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی سچی آواز، عوامی مسائل کو ابھارنے کا واحد
ذریعہ – ذرائع ابلاغ- کہاں تک پسماندہ علاقوں کی غریب عوام کی آواز کو
ارباب ِ اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ یوں
توصحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر ہماری صحافت جمہوریت کی
چوتھی کمزوری بن گئی ہے۔ صحافت کا تشخص خبر ہوتی ہے اور خبر میں رپورٹنگ کا
کردار بنیادی ہوتا ہے۔ جب کہ ہماری رپورٹنگ لنگڑی ہمارے کالم سیاست زدہ،
ہماری زبان ناشائستہ اور ہمارے انٹرویو سوالات سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
اس کے بعد صحافت میں رہ ہی کیا جاتا ہے؟ ہماری صحافت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ
ہے کہ صحافت سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ سیاست دانوں کی خوشامدی، اْن کے
کالے کارناموں کی پردہ پوشی، اْن پرلکھے گئے قصیدوں کے لئے اپنے اخباروں کی
کا ایک پورا صفحہ وقف کر دینا اور ٹی وی اسکرینوں پر پورا پورا دن اْن کی
جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنا موجودہ دور کی صحافت کا معیار بن چکا ہے۔
صحافت ہی واحد ذریعہ تھا جو غریب عوام کی آواز کو بلندکرتا لیکن موجودہ دور
کی صحافت اپنے پیشہ سے بالکل سنجیدگی نہیں برت رہی ہے۔ صحافت جو کبھی واقعی
غریبوں کی سچی آواز کو بلند کر نے کا ایک ذریعہ ہوتا تھا دور ِ حاضر میں اس
طرح سے رشوت کا بھوت بن کر عوامی مسائل کو ابھارنے کے بجائے اپنی سچی ا?واز
کی ٹیون بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگاتی۔ گو کہ صحافت محض تجارت کے
طورنبھائی جاتی ہے۔ مجھے صحافت سے کسی قسم کی دشمنی نہیں اور نہ ہی کسی قسم
کا بیر لیکن مجھے موجودہ دورکی انداز ِ صحافت سے حد درجہ نفرت ہے۔ راقم خود
بھی موجودہ لولی لنگڑی صحافت سے منسلک ہوں لیکن اﷲ کا کرم ہے کہ ابھی تک
سیاست دانوں کی خوشامدی سے اﷲ پاک نے بچائے رکھا ہے۔ لیڈر حضرات کی ذات پر
قصیدہ بازی کرنا، اْن کی جی حضوری کرنا، خوشامدی کرنا بے شک وقت کا تقاضا
ہے لیکن ایسے صحافیوں کے لئے جنھوں نے صحافت کے اس عظیم پیشے کو اپنی انا
اور ذاتی مفاد کی خاطر صرف سیاست دانوں کی جی حضوری اور خوشامدی تک محدود
رکھا۔ ملک یاریاست میں کتنے ہی ایسے علاقے ہیں جہاں سے لیڈر حضرات ووٹ تو
حاصل کرتے ہیں لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ علاقہ کا نام کیا ہے تو لیڈر
محترم کو معلوم ہی نہیں ہوتا جبکہ اس علاقہ کے تمام فنڈز وہ بڑی آسانی سے
اپنی تجوری میں بھر دیتا ہے کیونکہ اُسے اس سب کا ثبوت بنانے کیلئے آج کی
صحافت جو نصیب ہوئی ہے جہاں وہ چار پیسہ دے کرکسی قسم کا بھی اعلان کر
اسکتا ہے کیونکہ دور ِ حاضر کی صحافت بغیر تحقیق کئے واٹس ایپ اور فیس بک
جیسی سوشل سایٹوں سے تصویریں حاصل کر کے اور ویڈیو کلپ میں ایڈیٹنگ کر کے
اپنی خبروں کا بلیٹن جاری کر دیتے ہیں جس وجہ سے موجودہ دور میں صحافت ایک
تجارت کی منڈی بن کر رہ گئی ہے۔ جہاں زر دار اشخاص چند روپے دے کر آسانی سے
اپنی جھوٹی شان کو دوبالا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جب کہ صحافت جو کبھی
عوامی آواز کو بلند کرنے کا واحد ذریعہ ہوا کرتی تھی تیز رفتاری سے عوام کے
لئے وبا اور سیاست دانوں، رزداروں اور رئیس لوگوں کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
صحافت معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے لیکن موجودہ دور میں خود کو نامور کہلانے
والے صحافیوں نے صحافت کو صرف چمچہ گیری اوردادا گیری تک محدود کرکھا ہے۔
پرنٹ میڈیا میں کام کر رہے صحافیوں نے چمچہ گیری اور دادا گیری نما صحافت
سے کسی حد تک خود کو تو بچائے رکھا ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا میں خود کو
نامور اور معروف کہلانے والے صحافیوں نے اپنی نازیبا زبان کے استعمال سے
معاشرے میں صحافت کی قدر و منزلت اور اس کی پہچان کو جس طرح مسخ کیا ہوا ہے
یا کر رہے نہایت ہی افسوس کن اور قابل ِ رحم امر ہے۔ یوں بھی ا?ج کے نیوز
چینلوں میں خبر کہیں دیکھنے کو تو نہیں ملتی ہاں جب انسان ٹی وی کے سامنے
بیٹھ کرٹی وی اسکرین پر بڑے بڑے لفظوں میں بریکنک نیوز جیسے الفاظ پڑھتا ہے
تو کچھ دیر خبر نامہ دیکھنے کی تمنا ضرور کرتا ہے۔ لیکن افسوس تو اْس وقت
ہوتا ہے جب خبرنامہ سنانے والا صحافی خبروں کی ایسی خبر لیتا ہے کہ انسان
دنگ رہ جاتا ہے۔ صحافی جسے خبرنامے کے طور سناتا ہے وہ حقیقی معنوں میں
خبرنامہ نہیں بلکہ اپنے ہم پیشہ صحافیوں کے خلاف الزام تراشیوں اور انہیں
نیچا دکھانے کا ایک منظم شدہ اپی سیوڈ ہوتا ہے جسے وہ اپنے نیوز چینل سے
نشر کر کے خبریں سننے والوں کے دلوں کو مجروح کرنے کے سوا اور کچھ نہیں
کرتا۔ گزشتہ روز سے صحافیوں نے جس طرح سے ایک دوسرے پرکیچڑ اچھالنے کا کام
شروع کر رکھا ہے وہ صحافت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے جو سات سمندروں کے
پانی سے بھی دھویا نہیں جا سکتا ہے۔ ایسے صحافی جنہیں عوامی حقوق کی آواز
بلند کرنے کی جرأت نہیں ہوتی آپسی رسہ کشی میں مبتلا ہونے کے بجائے اور کر
ہی کیا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت سے جڑے ایسے صحافی جو کہ صحافت کے
اصل مقام سے آگاہ ہونے سے جی چراتے ہوئے رئیس، زادار اور اثر رسوخ رکھنے
والوں کے غلام بن کر صحافت کا خوفناک چہرہ سامنے لا کر صحافت کو بدنام کرنے
میں اپنا کردار نبھاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسے ہی صحافیوں
کا نام اول درجے پر ہوتا ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنے میں
ماہر ہو۔سچ کہنے والے صحافیوں کو دیش دروہی قرار دیکر سلاخوں کے پیچھے کر
دیا جاتا ہے۔ سچ کہنے یا لکھنے والے کی زبان پرقفل لگا دیا جاتا ہے…… خواہ
وہ تالا پیسے کا ہو، عہدے کا ہو یا پھر دھمکی کا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دور ِ
حاضر میں سیاست دان، بیروکریٹس، رئیس اور زردار لوگ صحافیوں کو اپنے جیب کا
مال سمجھتے ہیں اور اس طرح سے صحافت کا معیار دن بدن گھٹتا جا رہا ہے۔
یہاں یہ کہنا بھی لازمی ہے کہ ایسی صورتحال میں جہاں صحافت صرف سیاست کی
گرویدہ بنتی نظر آ رہی ہے صحافت کے اس دھندلے معیار میں روشنی کی تھوڑی سی
کرن جو نظر آرہی وہ اُن گمنام صحافیوں کی محنت کا نتیجہ ہے جو واقعی قوم کی
بھلائی کے لئے صحافت میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں نہ کہ دیگر صحافیوں کی
طرح خبر کے ساتھ اپنا نام لکھ کر یا اپنے آپ کو ٹی سکرین پر لاکرخود کومکمل
صحافی سمجھتے ہیں جب کہ خبر پوری طرح سے سیاست زدہ ہو تی ہے خواہ وہ کسی
حادثہ کی خبر ہی کیوں نہ ہولیکن اُس میں حادثے سے متعلق کہانی کم اور سیاست
دانوں کی قصیدہ بازی زیادہ ہوتی ہے۔ |