61ہجری کو کربلا کے میدان میں جو حق و باطل
کے درمیان معرکہ ہوا اس میں اﷲ نے قیامت تک کے لئے حق کو باطل پر فتحیاب کر
کے دنیا کو بتا دیا کہ جو اﷲ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں انھیں پروردگار عالم
قیامت تک کی زندگی عطا کر دیتاہے۔ اسی لئے اﷲ کی راہ میں حق پر لڑتے ہوئے
جان دینے والوں کے لئے کہا گیا کہ انھیں مردہ نہ کہو، ان تک اﷲ کی طرف سے
رزق بھی پہنچایا جاتا ہے۔ لہذا اس میں کسی شک و شبہہ یا بحث کی گنجائش نہیں
کہ اﷲ اپنی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر بھی قیامت تک لئے زندہ کر دیتا
ہے۔ کیا یہ معجرہ قدرت نہیں کہ خانوادہ رسول ﷺ کے وارث حضرت امام حسین اور
ان کے ساتھیوں کو یزیدیت کے خلاف لڑائی میں جان دیئے ہوئے چودہ سو برس سے
زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کربلا کے شہیدوں کا خون آج بھی تازہ ہے۔ آج
بھی دنیا بھر میں ہر سال کربلا کا ذکر یوں کیاجاتا ہے کہ جیسے کل ہی کا
واقعہ ہو۔پس اﷲ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر
عام کر دوں گا۔ 61ہجری کی کربلا کی لڑائی میں بظاہر تو یزید اور اس کے فوج
کے ہزاروں جہنمیوں کو کامیابی ملی اور 10محرم الحرام کو امام مظلوم سمیت
امام کے تین دن کے بھوکے پیاسے 72 صحابیوں کے گلے کاٹے گئے ، ان کے لاشے
پامال کئے گئے اور اس کے بعد شام گریباں کے وقت خانوادہ رسول کے خیموں کو
آگ لگائی گئی ۔ پاک و طاہرہ اور با پردہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، انھیں
قیدی بنا کر بے پردہ سر بازار لایا گیا۔ بچوں کے طمانچے مارے گئے۔غرض یہ کہ
ظلم و بربریت کی وہ مثال قائم کی کہ آج بھی ہر مسلمان کی وہ تمام مناظر
تصور میں لا کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔ لیکن وہ بظاہر یزید کی فتح تھی بعد
میں وقت نے ثابت کیا کہ اس معرکہ میں اصل اور دائمی فتح امام مظلوم ، ان کے
خانوادے اور ان کے صحابیوں کو ہوئی یہی وجہ ہے کہ ہر سال دس محرم الحرام کو
ہر مسلمان اپنی اپنی بساط اور سطح کے مطابق یزید اور اس کے جہنمی لشکر پر
لعن طعن کرتا ہے۔ یہ عمل چودہ سو برس سے زائد عرصے سے جاری ہے ۔ اب ذرا
تصور کیجئے کہ چودہ سو برس ے ان سچے مسلمانوں کی لعنتوں کی وجہ سے یزید اور
اس کا لشکر جہنم کے کس مقام پر ہو گا۔ دوسری طرف صدیوں سے امام مظلوم اور
ان کے ساتھیوں کے لئے درود سلام کے ہدیات پیش کئے جاتے ہیں، گریہ و آہ و
زاری کی جاتی ہے-
او ر ہر سچا مسلمان سید الشہداء حضرت امام حسین کو یہ یقین دلانے کی کوشش
کرتا ہے کہ اگر وہ کربلا کے میدان میں ہوتا تو حسینی کیمپ کا ہی سپاہی ہوتا
اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا کربلا 14سو برس
پہلے ختم ہو گئی یا آج بھی باقی ہے۔ آج بھی حق و باطل کا معرکہ جاری ہے۔ آج
بھی یزیدی لشکر حق کو مٹانے کے لئے صف آراء ہیں۔آج بھی حق کی لڑائی کے لئے
حسین استغاثہ بلند کر رہے ہیں بس اس آواز کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کی
ضرورت ہے۔آج ساری دنیا پر باطل کا غلبہ ہے۔ آج ساری دنیا میں مسلمان پستی
کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان نفاق ڈلوا کر ہر مسلمان ملک کو تنہا کر کے
مارا جا رہا ہے۔ ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک پر چڑھائی کرنے کے لئے
تیار نظر آرہا ہے۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھنے کے بجائے مسلمانوں کی ایک
دوسرے کے خلاف نفرتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آج بھی طاغوتی قوتیں ایک
مسلمان ملک کو دوسرے مسلمان ملک کے خلاف اسلحہ کے فروخت میں مصروف ہیں لیکن
ہم سازشوں کو سمجھنے کے بجائے سازشوں کا شکارہیں۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں
کی اکثریت مغربی قوتوں کے پیچھے پیچھے ہیں۔ سعودی عرب سے عراق وشام تک اور
شام سے الجزائر تک، الجزائر سے ایران و افغانستان تک اور افغانستان سے
پاکستان تک سارے ممالک آتشکدہ بنے ہوئے ہیں جس کی آگ سے مغربی ممالک اور
تمام یزیدی و طاغوتی قوتیں ہاتھ تاپ رہی ہیں۔آج بھی کربلا اسی طرح باقی ہے۔
آج بھی یزیدی پیروکار مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو کر ان کے اتحاد کو پارہ
پارہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ آج تمام ہی مسلمان ممالک میں فرقہ واریت
اپنے عروج پر ہے ۔ ایک فرقہ دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔
آج ہمیں واجبات اور فروعات دین میں مشترکات تلاش کرنے کی ضرورت پہلے سے
کہیں زیادہ ہے۔ یہ درست ہے کہ آج جو حق و باطل کی جنگ جاری ہے اس میں بھی
آخری فتح حق ہی کو ملے گی۔ دین اسلام کو تمام عالم میں سربلندی اور پزیرائی
ملے گی اور مسلمانوں کا ساری دنیا پر غلبہ ہو گا۔ کوئی حق کا ہادی ضرور آئے
گا کہ جو طاغوتی اور یزیدی قوتوں کے خلاف حق پر چلنے اور باطل کے سامنے ڈٹ
جانے والے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے گا اور دنیا کی تمام باطل
قوتوں کو نیست و نابود کر دے گا کیونکہ یہ اﷲ کا وعدہ ہے ۔اس ہادی برحق کے
تمام مسلمانوں کی طرح ہم بھی منتظر ہیں لیکن ہم سب کو اس ہادی برحق کے ظہور
کی راہ ہموار کرنے کیلئے اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالنا ہو گا۔ |