10محرم کا امتحان۔۔۔مگر کس کے لئے؟؟؟

 نبی اکرمﷺ جنہوں نے امام حسین ؓکو کندھے پر سواری کروائی تھی اور سجدے کے دوران امام حسینؓ کے پشت پر بیٹھ جانے کی صورت میں ان کے ازخود اتر جانے تک سجدے سے نہ اٹھتے تھے۔وہ 10 محرم کی شام کو اس بات کے منتظر ہوں گے کہ میرے کندھوں پر سواری کرنے والا حسینؓ میرے دین کی آبیاری کس طرح کرے گا اور میرے سیرت کی کتاب کا آخری باب کیسے رقم کرے گا۔حضرت فاطمہ الزہرہؓ روحانی طور پر کربلا کے میدان میں اپنے مقدس دودھ کی تاثیر دیکھنے کی منتظر ہوں گی کہ جسے میں نے اپنے دودھ سے پالا ہے وہ آج اس امتحان میں مجھے کیسے سرخرو کرتا ہے۔حضرت علیؓ بھی اپنے مقدس خون کا رنگ اور حیدری للکار دیکھنے کو بے تاب ہوں گے جو صرف حضرت علیؓ کا ہی خاصہ تھی ۔مگر یہ کیسا امتحان تھا جو رہتی دنیا کو امتحان میں ڈال گیا۔واقعہء کربلا کا بپا ہونا معمولی و غیر معمولی واقعات سے بہت اوپر کی سطح کی انہونی تھی جو خیر و شر کے درمیان واضح لکیر کھینچنے کے لئے بپا ہوئی تاریخ انسانی میں یوں تو لاکھوں خیر و شر کے معرکے بپا ہوئے لاکھوں شہادتیں ہوئیں۔لاکھوں قیدی و اسیر بنائیں گئے ہوں گے مگر یہ حقیقت اظہر من الشمش کی طرح عیاں ہے کہ آج تک کسی اور شہادت کو اس قدر شہرت ، قبولیت اور ہمہ گیر تذکرہ نصیب نہیں ہوسکا جتنا تذکرہ واقعہء کربلا کے شہداء کے حصے میں آیا۔تیرہ سو سال کے بعد بھی حضرت علی اکبرؓاور حضرت قاسم بن حسن ؓکی شہادت کے چرچے ہیں۔ تیرہ سوسال سے زائد کا عرصہ بھی ننھے علی اصغر کی شہادت کا غم اور دکھ بھلانے میں ناکام ہے۔اور آج تیر ہ سو سال سے زائدکا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی علیؓ شیر خداــ کے بیٹے کی تلوار کا خوف باقی ہے۔حضرت علی ؓ شیر خدا کے اکیلے شیر کویزیدی لشکر میں پا کر جو کہرام بپا تھا وہ آج بھی یزیدیت کے رونگٹے کھڑے کرنے کو کافی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ اہلِ بیت و اطہار کا امتحان تھا جس میں وہ سب سرخرو رہے۔دین کی سر بلندی کے لئے ہر طرح کے ظلم و جبر کے سامنے استقامت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ مگر میرے سوچنے کا ڈھنگ تھوڑا مختلف ہے یہ ڈھنگ آپ کو بے ڈھنگ بھی محسوس ہو سکتا ہے مگر میرا ماننا یہ ہے کہ واقعہء کربلا اہلِ بیتِ اطہار کی عظمت و بلندی کو اس فرشِ دنیا پر ظاہر کرنے کا اک بہانا تھا۔امتحان تو یہ اس دشت کا تھا جو نا چاہتے ہوئے بھی تپتا رہا۔امتحان تو یہ تھا کہ ریت کا زرہ زرہ واقفِ شان تھا اس دشت کا چھوٹے سے چھوٹا زرہ اپنی اوقات جانتا تھا کہ اگر یہ رسول ﷺ نا ہوتے تو ہماری کیا وقعت و مجال کہ ہم بھی اپنا وجود رکھتے۔دشتِ کربلا واقف تھا کہ وہ خانوادہء رسول ﷺ کی سیج بنا ہوا ہے ۔ واقفِ شان تھا تو واقفِ حال بھی ہوگا کہ کن دشمنوں نے دھوکے میں گھیر رکھا ہے۔اور یہ سب جانتے ہوئے بھی جب اس دشت کے سرخرو ہونے کا وقت تھا جب یہ دشت خود کی وفاداریاں سپردِ مالک کر سکتا تھا عین اس موقع پر اسے جامد کر دیا گیا۔خانوادہء رسولﷺکی غیرت و حمیت اس بات سے ماوراء ہے کہ وہ ایریاں رگڑتے مگر میرا کامل یقین ہے کہ اس دشت کا زرہ زرہ ایڑیاں رگڑتا رہا ہوگا کہ
مولا!
اذن دے تو ہم ان ذروں تلے بہنے والے پانی کو ان کے قدموں کے سپرد کر دیں۔دشت التجا کرتا ہوگا کہ مولا!اجازت دے اس تپتی ریت کو ٹھنڈک بنا کر خانوادہء رسولﷺ کے قدموں پر وار دیں اور اک خوفناک طوفان سے ان دشمنوں کی جان لے لیں۔ مگر جب جواب نفی میں ہوگا تو کس ہمت سے اس مخلوق نے اپنے مالک و خالق کے حبیبﷺ کے لاڈلوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

اور پانی۔۔جو میدانِ کربلا میں موجود شہزادوں کے نانا ﷺ کے انگلیوں سے بہتا تھاوہاں اگر امام حسینؓ چاہتے تو آسمان کی طرف اک توجہ فرمانے کی دیر تھی خدا کی ذاتِ قدیر بادلوں کو حکم دیتی وہ برستے چھماچھم برستے اتنا برستے کہ پیاس کی کوئی صورت باقی نا رہتی لیکن یہ شہادتِ نبویﷺ کا ظور تھا اور شہادت جتنی مظلومیت کی حالت میں ہو اسی قدر رتبے میں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔اگر حضرت اسماعیل کے ایڑی رگڑنے سے چشمہ پیدا ہوسکتا ہے تو نواسہء رسولﷺ کے لئے یہ بعید نا تھا کہ آپ کے حکم سے میدان کربلا میں پانی کے کئی چشمے بہہ نکلتے۔ اگر آپ فرات کی چرف اشارہ کرتے تو فرات اپنا رخ بدل کر آپ کے قدموں میں آجاتا۔الغرض آپ جو چاہتے خدا تعالٰی کی ذات وہ کر دیتی۔مگر شہادتِ حسینؓ نبوتِ محمدیﷺ کا اک باب تھی سو جیسے نبوتِ محمدیﷺ میں تمام انبیاء علیہ السلام کی تمام خصوصیات جمع تھیں یوں ہی اﷲ پاک نے اپنے پیاروں کو آزمانے کی جو جو صورتیں بیان کی وہ سب آزمائشیں شہادتِ امامِ حسینؓ اور واقعہء کربلا میں مجتمع نظر آتی ہیں۔مگر یہ سب ہم جیسوں کو وہ سبق یاد کروانے کے لئے ہوا جوواقعہء کربلا کے بناء شائد ہم بھول جاتے۔نواسہء رسول ﷺخود تو اذیتوں،پریشانیوں،آزمائشوں سے گزرے ہی اور خدا پاک کی ذات گواہ ہے کہ ان جیسی سرخروئی پانے والا پھر کسی ماں نے نہیں جنا۔واقعہء کربلا کے دوران خدا کی باقی مخلوق جس امتحان سے گزری وہ اک الگ داستان ہے۔اس امتحان کی کتاب کا اک باب آج کے دور میں موجود ہم انسانوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ تا ریخ کربلا اور شہادتِ حسینؓ نے کافر،ظالم،فاسق و فاجر،منافق اور طاغوت صفت لوگوں کی نشاندہی کر کے حق و باطل میں تفریق کی اور پھر حسینیت کو ہر طبقہ میں حق اور یزیدیت کو ہر طبقہ میں فتنہ و فساد کی علامت بتاتے ہوئے ان کے مابین اک واضح لکیر بندی کر دی ۔اور حسینیؓ قافلے میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط مقرر کر دی کہ کم ازکم تم اتنا شعور تو رکھتے ہو کہ نشہء اقتدار میں بد مست اکڑنے والوں کو،کاہل،غافل اور لا پرواہ اور مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر فرعونیت و قارونیت اپنا کر اپنے ایمان کا سودا کر لینے کے بعد ظلم و ستم ڈھانے والوں کے خلاف اپنی سوچ، اپنے علم،اپنی فکر،اپنے قلم اور اپنے عمل سے جہاد جاری رکھو۔مگر یہاں معاملہ ہی جدا ہے۔یہاں ہر اپوزیشن پارٹی خود کوسالارِ قافلہء حسینی سمجھتی ہے۔یہاں ہر انسان انفرادی حیثیت سے بھی خود کو حسینیت پر عمل پیرا سمجھتا ہے۔مگر جب ان سے سوال کیا جائے کہ اک معرکہء کرب و بلا ماڈل ٹاؤن کی بھی زینت بنا تھا تب تمھارا کردار کیا تھا؟

جواب یقینا چند مصلحتوں پر مبنی ہوگا۔ خود کو حسینی کہلانے والوں سے پوچھا جائے کہ تمھاری نام نہاد حسینیت کہاں تھی جب حاملہ خواتین کو چہروں پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا؟ممکنہ جواب سیاسی پہلوں پر مشتمل ہوگا۔پھر مزید پوچھا جائے کہ چلو اس سب کے بعد جب ان کے ورثاء انصاف لینے نکلے تھے تب تم نے اپنی آواز بلند کی؟؟ جواب نہیں میں ملے تو پوچھئے خود سے بھی اور سامنے والے سے بھی کہ ہم میں حسینیت کہاں ہے؟؟10محرم کا ہر آنے والا دن ہمارے لئے امتحان ہے اور یہ دن آپ سے اور مجھ سے یہ سوال کرتاہے کہ ہم لکیر کے کس طرف ہیں
دائیں طرف؟یابائیں طرف؟؟کس قافلے کا حصہ ہیں؟حسینیؓ قافلے کا؟ یا یزیدی قافلے کا؟؟
گریبان میں جھانک کر سوچئے گا ضرور۔۔۔
Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23530 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More