ماں کی دعاؤں اور ایم بی اے کی ڈگری سمیٹتے
ہوئے اس نئے وسیع و عریض شہر کی خاک چانتے ہوئے اسے آج ساتواں روز تھا ۔
ہوش سنبھالتے ہی اماں کی محنت ،مشقت اور پڑھ میرے چاند تو پڑھ کی گردان یاد
آرہی تھی ۔۔ ایک ایک پیسہ جوڑ کر اسے پڑھایا ۔ ذہین اور محنتی تو وہ تھا ہی
، وظیفے ملتے گئے ،امیر کبیر بچوں کی صحبت میں بھی وہ کبھی ہراساں یا
شرمندہ نہیں ہوا۔ ماں سے سر اٹھا کر جینا سیکھا تھا۔۔
صرف پچاس روپے بچ گئے تھے ۔ ایک مزدور سے منت سماجت کرکے پچاس کی کدال خرید
لی ۔ "جی پانچ سو منظور ہیں اور روزگارکے لئے روانہ ہوا۔۔ |