رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا
مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان ’’اَلصَّوْمُ
لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِه‘‘ کے فیض کو سمیٹنے اور رضائے الہٰی کے حصول کے
لئے روزے رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی سورہ البقرہ آیت نمبر 183 تا 187 میں ماہ
رمضان کے روزوں کے احکام مثلاً تعداد، روزے کی حدود، روزے کا مہینہ، روزہ
توڑنے والی چیزیں، مسافر اور مریض کے لئے رخصت و رعایت اور قضاء کا حکم
وغیرہ۔ یہ تمام احکامات نماز، زکٰوۃ اور حج کے مقابلے میں زیادہ تفصیل اور
وضاحت سے بیان فرمائے گئے ہیں۔
روزہ اور اس کے ارکان
روزے کی تعریف یہ ہے کہ الأمساک عن المفطرات مع اقتران النية به من طلوع
الفجر الی غروب الشمس. (القرطبی) ’’روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب
آفتاب تک ہر قسم کے مفطرات سے رک جانا‘‘۔
درج بالا روزے کی شرعی اور اصطلاحی تعریف سے ہی اس کے ارکان کا تعین ہو
جاتا ہے یعنی :
1. نیتِ روزہ
2. امساک یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرنا اور مباشرت سے رکے رہنا
3. سحری سے غروبِ آفتاب تک کے معین وقت کی پابندی
نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ روزے کی صحت کے لئے نیت سب سے اولیت رکھتی ہے‘
ورنہ کھانے پینے سے محض رکے رہنے سے ہرگز روزہ نہیں ہوگا۔
روزے کی افطاری اور روزہ رکھنے کی دعا کے الفاظ کسی حدیث میں منقول نہیں۔
اصل نیت فرض ہے اور وہ دل کے ارادے کا نام ہے۔ اصطلاح شریعت میں نیت کا
مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اللہ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ
کرنا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور دیگر عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض
نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں لہٰذا ذہن کو یکسو کرنے کے لئے دل کے
ارادے کے ساتھ ساتھ زبانی الفاظ بطور نیت دہرانا مستحب ہے۔
ہر عمل کو اس کی صحت کے اعتبار سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چند شرائط
اور لوازمات کا پایا جانا ضروری ہے اور ان کی عدم موجودگی میں وہ عمل ناقص
رہتا ہے۔ اسی طرح روزے کے متعلق ضروری اور اہم مسائل و احکامات کا جاننا ہر
ایک کے لئے از حد لازم ہے۔
روزہ نہ رکھنے کے شرعی عذر
شریعت اسلامی نے ہر موقع پر اپنے ماننے والوں کو آسانی فراہم کی اور اکثر
معاملاتِ دین میں مجبوریوں کے باعث رعایت بھی دی۔ اسی طرح رمضان المبارک کے
روزے کے بارے میں بھی چند مجبوریوں کے باعث شریعت نے رخصت دی ہے کہ اگر وہ
چاہے تو روزہ نہ رکھے‘ مگر مجبوری کے اختتام پر قضا روزوں کو ادا کرے۔ عام
طور پر واقع ہونے والے بڑے بڑے عذر جن کے سبب روزوں کی قضاء کی جا سکتی ہے
:
1. مرض یا بھوک و پیاس کی شدت: کوئی شخص کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے کہ
روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو یا پھر بھوک پیاس کی وجہ سے جان
جانے کا خطرہ ہو۔ ان صورتوں میں دیندار اور مسلمان ڈاکٹر کی رائے ہی زیادہ
قابلِ اعتبار ہوگی۔
2. سفر اس عذر کے لئے سفر کی مقدار وہی معتبر ہوگی‘ جس میں نماز کی قضا
لازم آتی ہے۔ دورانِ سفر اگر روزہ باعث تکلیف نہ بنے تو روزہ رکھ لینا ہی
افضل ہے۔
3. کمزور‘ لاغر اور بوڑھا ہونا: کوئی شخص کسی وجہ سے اتنا کمزور یا بڑھاپے
کی وجہ سے بہت زیادہ لاغر ہو اور اسے دوبارہ طاقت آنے کی امید بھی نہ ہو تو
اس کے لئے رخصت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار میں فدیہ دیتا
رہے یا کسی فقیر مسکین وغیرہ کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلاتا رہے۔
معذور کو اس صورت میں یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فدیہ شروع رمضان میں دے دے‘ ہر
روز دیتا رہے یا آخر میں اکٹھا ادا کر دے۔
4. عورت کا حاملہ ہونا یا دودھ پلانا: رمضان المبارک میں کوئی عورت اگر
حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے سے اسے یا بچے کو نقصان
پہنچنے کا خدشہ ہو تو وہ بھی روزہ قضا کر سکتی ہے۔
5. جہاد میں شرکت: دشمن کے مقابلے میں لڑنا پڑے اور لڑائی میں حالت روزہ‘
کمزوری کی وجہ سے کسی رکاوٹ کا سبب بنے تو ایسے مجاہد کے لئے بھی رخصت ہے۔
ان تمام صورتوں میں معذور عورت یا مرد کو چاہئے کہ وہ سرعام کھانے پینے سے
پرہیز کریں‘ کیونکہ اس سے رمضان المبارک کا تقدس پامال ہوتا ہے۔
متفرق احکامات
* روزہ کی نیت رات سے کر لیں تو افضل ہے ورنہ نصف النہار سے قبل نیت کر
لینا بھی درست ہوگا۔
* اگر نیت کے مسنون الفاظ دہرا لئے جائیں تو افضل ہے ورنہ اگر کوئی سحر کے
وقت روزہ رکھنے کے لئے اٹھا اور کچھ کھا پی کر روزہ رکھ لیا تو یہی اس کی
نیت ہے۔
* روزہ کی حالت میں محض روزہ توڑنے کی نیت سے روزہ نہیں ٹوٹتا ‘جب تک کہ
کچھ کھایا پیا نہ جائے۔
نیت روزہ کے مسنون اور مختصر الفاظ
نويت بصوم غد ﷲ تعالی من شهر رمضان. ’’ماہِ رمضان کے روزے کی میں نیت کرتا
ہوں‘‘۔
اگر رات کو نیت نہ کر سکے اور دن کو کرے تو یوں کہے :
نويت ان اصوم هذا اليوم ﷲ تعالی من شهر رمضان. ’’میں ماہِ رمضان کے اس دن
کے روزے کی نیت کرتا ہوں‘‘۔
دن کو نیت کرنی پڑے تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو صبح صادق سے روزہ دار تصور
کرے۔
سحری و افطاری کے احکام
1. سحری کرنا یعنی صبح صادق سے قبل کچھ کھا پی لینا سنت ہے ۔
2. سحری کا وقت تو نصف شب کے بعد شروع ہو جاتا ہے مگر افضل ترین سحری آخری
حصہ شب کی ہے۔
3. سحری میں تاخیر افضل اور افطاری میں جلدی کرنا سنت ہے۔
4. افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
5. افطاری میں عجلت سے مراد یہ نہیں کہ وقت سے پہلے ہی افطار کر لیا جائے
اس پر احادیث میں سخت سزا کا ذکر آیا ہے۔
6. روزہ کھجور‘ چھوہارے یا پانی سے افطار کرنا سنت ہے اور مستحب یہ ہے کہ
تین‘ پانچ یا نو دانے کھائے۔
روزہ توڑنے والی چیزیں
1. عمداً کھانے پینے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ اگر بھول کر کھا پی
لیا‘ جماع کر لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
2. ہر قسم کی تمباکو نوشی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
3. دانتوں میں رکی ہوئی چنے کے برابر یا اس سے کم چیز نکال کر کھا لی تو
بھی روزہ جاتا رہا۔
4. نتھنوں میں دوا چڑھائی یا کان میں تیل ڈالا یا دوائی‘ تیل وغیرہ حلق میں
چلا گیا تو روزہ ٹوٹ گیا۔
5. بلاقصد بھی اگر کلی کرتے ہوئے پانی حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ نہ رہا۔
6. قصداً منہ بھر کر قے کی تو روزہ ٹوٹ گیا‘ بلااختیار اور بلا قصد قے ہو
گئی تو (ا) اگر منہ بھر کر ہوئی اور کوئی قطرہ واپس حلق سے اتر گیا تو روزہ
ٹوٹ جائے گا (ب) اگر منہ بھر کر نہیں ہوئی اور اس کے چند قطرے واپس چلے گئے
تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
7. خون تھوک کے ساتھ پیٹ میں چلا گیا اور خون تھوک پر غالب تھا تو روزہ ٹوٹ
گیا‘ ورنہ نہیں۔
8. کنکری‘ لوہے کا ٹکڑا یا کسی ایسی چیز کا کھا لینا جو عام طور پر نہیں
کھائی جاتی تو بھی روزہ ٹوٹ گیا۔
9. منہ میں کوئی ایسی رنگین چیز رکھی جس سے تھوک پر اس چیز کا رنگ غالب آ
گیا اور وہ تھوک اس نے نگل لی تو روزہ جاتا رہا۔
ماہ رمضان میں اگر اتفاق سے کسی کا روزہ ٹوٹ گیا تو روزہ ٹوٹنے کے بعد بھی
کچھ کھائے پیئے نہیں‘ بلکہ سارا دن روزہ داروں کی طرح رہنا ضروری ہے۔
روزہ کے مکروہات
مندرجہ ذیل امور روزہ کے مکروہات ہیں :
1. جھوٹ‘ غیبت‘ چغلی‘ گالی گلوچ کرنا یا کسی کو تکلیف دینا۔
2. روزہ دار کا کوئی چیز بلاوجہ زبان پر رکھ کر چبانا یا چبا کر اگل دینا
وغیرہ۔
3. قولاً یا عملاً جنسی رغبت اور شہوانی جذبات برانگیختہ کرنے والے امور۔
4. روزہ کی حالت میں پانی چڑھانے یا کلی کرنے میں مبالغہ کرنا۔
5. پیاس کی حالت میں پانی کے غرغرے کرنا‘ کیونکہ اس صورت سے روزہ ضائع ہونے
کا قوی امکان ہے۔
کِن باتوں سے روزہ نہیں ٹُوٹتا
علاوہ ازیں غسل کرنا‘ ٹھنڈا پانی سر پر ڈالنا‘ کلی کرنا‘ سادہ مسواک کرنا‘
سرمہ لگانا‘ بدن پر تیل ملنا‘ خوشبو لگانا یا سونگھنا مکروہات روزہ میں
شمار نہیں ہوتے۔
روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ
کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کا روزہ یا کوئی دوسرا نفلی روزہ ٹوٹ گیا تو
اس کی قضا لازم ہے‘ لیکن بلا عذر شرعی، رمضان المبارک کا روزہ توڑنے پر قضا
کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ رمضان المبارک کے ایک روزے کا بدل تو
سال بھر کے روزے بھی نہیں بن سکتے‘ لیکن شریعت نے اس کی کم از کم مقدار یہ
مقرر کی ہے کہ وہ شخص لگاتار دو ماہ یعنی ساٹھ ایام کے روزے رکھے۔ اس میں
تسلسل شرط ہے یا پھر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مساکین کو دونوں وقت
کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائے۔
(از قلم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی)۔ |