میں حسب معمول پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر
بیٹھا کتاب میں محو مطالعہ تھا جو کہ میرا تقریبا روز کا معمول تھا.. شام
کے وقت کچھ دیر فراغت کے لمحات میں پارک میں ہی گزارتا.. مجھے یہاں کی ہر
چیز بھلی لگتی جیسے کھیلتے بچے ... درخت ... پرندے ... پھول اور کھلی فضا
وغیرہ....میں بچپن ہی سے کتب بینی کا بے حد شوقین رہا ہوں ... جیسے جیسے
عمر ڈھلتی گئ شوق میں اضافہ ہوتا گیا... شروع سے میری اک عادت تھی میں
زیادہ تر کتب کا مطالعہ پارک میں کرنا پسند کرتا...کیونکہ قدرتی حسن مجھے
بہت بھاتا اور میں اسکا دلدادہ تھا...آج بھی میں معمول کے مطابق اپنی نشست
پر بیٹھا کتاب ہاتھ میں لئے ورق گردانی میں مصروف تھا... ساتھ بسکٹ کے بھی
مزے لیتا... اور چائے بھی نوش جاں کرتا ..کھانے کے بعد ریپر اور دسپوز ایبل
گلاس وہیں گھاس پر پھینک دیئے ... حالانکہ کوڑا دان قریب تھا مگر اتنی مشقت
کون اٹھائے...
کتاب پڑھنے کے دوران اک طائرانہ نظر پارک پر ضرور ڈالتا... ابھی بھی جیسے
ہی نظر اٹھی ، ٹھٹک کر رہ گئ.. ایک معصوم صورت بچہ گھاس پر سے کچھ چننے میں
مگن تھا.. میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگا ... وہ کچھ اٹھاتا ، کوڑے دان
کی طرف جاتا اور اس میں ڈال دیتا.. وہ مسلسل ایسے ہی کر رہا تھا.. مجھے
سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ وہ کوڑا کرکٹ جو وہاں پر آئے لوگ گھاس پر
ڈال دیتے ہیں وہ انہیں سمیٹ رہا تھا..
مجھے اسکی یہ حرکت بہت دلچسپ اور انوکھی لگی. .میں اسے پکارے بنا نہ رہ سکا...
"سنو بیٹا ذرا ادھر تو آنا... "
اس نے مستعدی سے جواب دیا... " السلام علیکم انکل...!! ,بس ابھی آیا"
مجھے اسکا سلام کرنا بھی بہت اچھا لگا.. میں اسکا بے صبری سے انتظار کرنے
لگا...
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ میرے پاس چلا آیا... میں نےشفقت سے اسکے سر پے
ہاتھ پھیرا اور اپنے پاس بٹھا لیا.. وہ بڑے مؤدبانہ انداز سے بیٹھ گیا ....
کونسی کلا س میں پڑھتے ہیں آپ؟ میں نے پوچھا...
"میں پانچویں جماعت کا طالب علم ہوں انکل جی" اس نے اتنے ادب سے جواب دیا
کہ مجھے اس پے بے حد پیار آیا..
"ماشاء اللہ!!. بھئ بہت خوب"... اب میں اصل بات کی طرف آگیا..جس کیلئے اسے
پاس بلایا تھا...
"بیٹا!! آپ گھاس پر پڑا کچرا کیو ں چن رہے تھے؟؟؟ یہ تو یہاں کے سوئیپر کا
کام ہے.."
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "بیشک انکل!! انکا کام ہےمگر جب کوڑا دان ساتھ
موجود ہو تو اب یہ ذمے داری ہم پر بھی عائد ہوجاتی ہے کہ کوڑا اس میں ڈالیں.."
مجھے اسکی باتیں حیران کرنے لگیں... میں نے بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے اس
سے پوچھا...
"آپکو یہ پیاری پیاری باتیں کون سکھاتا ہے ؟ ""
اسکی آنکھیں چمکنے لگیں... فخریہ انداز سے کہنے لگا...
"میرے پیارے ابو جی... "
" اچھا... ماشاء اللہ.. "مجھے اس بچے کے ساتھ بات کرنے میں مزہ آرہا تھا
اور میری جستجو بھی بڑھتی جارہی تھی... اس سے اور بھی باتیں جاننے کو دل
چاہنے لگا میں نے اس سے استفسار کیا :
" اور کیا کیا باتیں سکھائی ہیں آپکے والد محترم نے؟؟"
اس نے خوش کن چہرے سے میری طرف دیکھا جیسے اسے یہ پوچھنا اچھا لگا ہو ..
پورے انہماک سے اپنے لہجے کو دھیما رکھتے ہوئے اس نے بتانا شروع کیا...
"ابوجی ہم سب بہن بھائیوں کو روزانہ کوئ نہ کوئ نئ بات سکھاتے ہیں اور
ہماری اصلاح کیلئے مختلف دینی ودنیاوی واقعات سناتے ہیں پھر ہم سے بازپرس
بھی کرتے ہیں کہ ہم عمل بھی کر رہے یا نہیں... اور جو عمل کرتا ہے اسکی
حوصلہ افزائ کے ساتھ ساتھ اسے تحفہ بھی دیتے ہیں... "
وہ تھوڑی دیر سانس لینے کو رکا... پھر اپنی گفتگو کو وہیں سے جوڑتے ہوئے
بولا...
"اسی طرح ابو جی نے ہمیں صفائ کے بارے میں جو ہدایات دیں ان میں سے اک یہ
بھی تھی کہ بلا شبہ 'صفائ نصف ایمان ہے'..اسلیئے اسکا خیال رکھنا بہت ضروری
ہے اور یہ صرف گھر تک ًمحدود نہیں بلکہ جہاں جہاں ہمارا گزر ہو... اور یہ
پورا شہر بلکہ یہ پورا ملک ہی ہمارا گھر جیسا ہے.. جسطرح ہم یہ بالکل پسند
نہیں کرتے کہ ہمارا گھر ذرا بھی گندا ہو اور اسکو صاف رکھتے ہیں... اسی طرح
ہمارا محلہ شہر بلکہ پورا ملک ہے.. اور اسے صاف رکھنا بھی ہماری ذمے داری
ہے... ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی گلی محلے سب کو صاف رکھیں باہر کچرا نہ
پھینکیں بلکہ کوڑا دان میں ڈالیں... اور اگر ہمیں کچرا نظر آ بھی جائے تو
ہم جمعدار کا انتظار کرنے کے بجائے خود پھینک دیں. اسطرح صفائ بھی رہےگی
اور کئ بیماریوں سے حفاظت بھی... اسلئے انکل جب مجھے کہیں بھی کچرا دیکھتا
ہے میں کوشش کرتا ہوں اسے کوڑے دان میں پھینک دوں اگر وہ دستیاب نہیں ہوتا
تو میں اپنے ساتھ گھر لےجاتا ہوں اور اپنے گھر کی ڈس بن میں ڈال دیتا ہوں"
میں نے اسکی تمام باتیں بڑے غور اور توجہ سے سنیں مجھے بہت اچھا لگا یہ جان
کر کہ آج بھی ہماری قوم کے بچے اسقدر تہذیب والے اور ملک وقوم کی خدمت کرنے
والے ہیں... میں نے اسے بہت سراہا اور اسکی حوصلہ افزائ کی... اور اپنے
پوتے کیلئے خریدی ہوئ چاکلیٹ اسے دےدی جو اس نے میرے اصرار پے شکریہ کے
ساتھ قبول کی اور بہت خوش ہوا اٹھتے ہوئے گھاس پے پڑے چائے کے گلاس اور
بسکٹ کا ریپر ہاتھ میں اٹھائے.. مسکراہٹ کے ساتھ اللہ حافظ کہتا ہوا چلا
گیا... اور میں اندر ہی اندر شرمندہ ہوتا رہا... اس نے آج وہ بات سکھادی جو
میں مطالعےسے بھی نہ سیکھ پایاتھا ... میں نے مستحکم ارادہ کرلیا آئندہ
ایسی شرمندگی سے خود کو حتی الامکان بچاؤں گا اور کبھی اپنا ملک گندہ نہیں
کرونگا اور یہی بات اپنی نسلوں کو سکھاؤن گا... یہ پورا ملک اور اسکا چپہ
چپہ میرے اپنے گھر جیسا ہے... جسکی صفائ اب میری بھی ذمے داری ہے... میں
بہت خوش اور دل میں نئے عزم کے ساتھ گھر لوٹ رہا تھا.. آج کی شام میری
زندگی کی اک یادگار شام تھی... |