پروفیسر کی غلطی

زندگی غلطیوں سے سیکھنے کا نام ہے۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو غلطی نہ کرتا ہو۔ ہرانسان کی زندگی غلطیوں سے درستیوں کی طرف ایک سفر ہے۔ کبھی کبھی ایسی غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں جن کو فراموش کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا، اور زندگی کے ہر موڑ پر وہ غلطی انسان کا تعاقب کرتی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ نئی غلطی پرانی غلطیوں کی یاد تازہ کر جاتی ہے۔

ہر انسان کی سوانح میں ایک باب غلطیوں کا بھی ہوتا ہے جسے زبردستی نکال دیا جاتا ہے۔ اگر انسان فراخ دل ہو تو اپنی غلطیوں کا باب کبھی نظر انداز نہ کرے۔ اصل میں یہ غلطیاں ہی ہیں جو انسان کو بہت کچھ دے جاتی ہیں۔ انسان کا بچپن چھوٹی، جوانی درمیانی اور پختہ عمر بڑی غلطیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ہر ڈاکٹر تجربہ کار ہونے سے پہلے نہ جانے کتنے مریضوں کو دنیا کے عذاب سے نجات دلا چکا ہوتا ہے، ہر وکیل کامیاب ہونے سے پہلے کتنے مقدموں میں غلطی کا فریضہ انجام دے چکا ہوتا ہے۔ ہر جج کتنے ہی فیصلے ،غلطی سے غلط کر چکا ہوتا ہے۔اسی طرح پروفیسروں سے بھی غلطیوں کی انجام دہی ہوتی رہتی ہے۔

پروفیسر حمید اﷲ ایک نرم دل انسان واقع ہونے کے ساتھ، ساتھ ادب سے بھی قریبی راہ و رسم کے بڑھا چکے تھے۔ وہ انگریزی، اردو اور پنجابی ادب ، خاص طور پر شاعری کے دل دادا تھے۔ انہیں شاعری کے لگاؤ نے بہت سے بڑے شاعروں کا کلام زبانی یاد کروا دیا تھا۔ ساتھ، ہی ساتھ وہ خود بھی شاعری میں ٹانگ اڑانے میں لطف اندوز ہوتے تھے۔ پھر ان کی شاعری کا چرچا، کالج کی فضاؤں اور نیٹ کی ویب سائٹوں پر بھی ہونے لگا۔ وہ شہرت کے حریص تو نہیں تھے لیکن شہرت کی ہد ہد ان کی منڈیر پر چہچہانے ضرور لگی تھی۔

وہ باقی پروفیسروں کی طرح ٹیوشن بھی پڑھاتے، لیکن اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ اپنی تخلیقات کے نام کر دینے میں زیادہ سکون پاتے۔ کالج میں بھی ان کے دوست، احباب ایسے لوگ بنے جو ادب بازار میں مالی دولت تو کیا سر کے بال تک فروخت کر چکے تھے۔ لیکن انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ درویش پروفیسروں میں ایک مہا درویش پروفیسر کے طور پر جانا جانے لگا تھا۔

دولت کی ضرورت اور خواہش کسے نہیں ہوتی ، لیکن درویشوں کی صحبت میں بیٹھنے والے اس بادِ صر صر سے قدرے پناہ میں رہتے ہیں۔ پروفیسر حمیداس بات میں خوش نصیب تھا کہ وہ اپنے درویشوں کی اس منڈلی میں باقی درویشوں سے زیادہ خوش حال تھا یا سمجھا جاتا تھا۔لیکن دل کا وہ بھی درویش ہی تھا۔اس کے دل میں غریبوں کی ہمدردی بچپن ہی سے گھر کر گئی تھی۔

وہ بذاتِ خود ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن غریبوں کی زبوں حالی اس کے دل میں درد بن کر سماگئی تھی۔ اس کے پاس کوئی لمبی ، چوڑی دولت یا جائیداد تو تھی نہیں کہ جو غریبوں میں بانٹ دیتا۔ویسے بھی غریبوں میں چاہے سارے جہان کی دولت بھی کیوں نہ بانٹ دی جائے غریب پھر بھی کہیں نہ کہیں سے نکل آتے ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں غریبوں سے ہمدردی ، دردِ دل بنے بغیر رہ نہ پاتی۔

جب کبھی پروفیسر حمید اﷲ کی نظر کسی بھیک مانگتی عورت، ہاتھ پھیلاتا ضعیف شخص یا غربت کے مارے غریب بچے پر پڑ جاتی تو اس کا دل درد سے کراہنے لگتا۔ اور لمبی چوڑی آمدنیاور جاگیر نہ ہونے کے باوجود اس کی جیب سے لمبے لمبے نوٹ نکل کر اس غریب کے ہاتھوں میں چلے جاتے۔وہ خیرات بانٹنے میں جلد باز تھا اور اتنی خاموشی سے اس نیک کام کو تکمیل تک پہنچاتا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ وہ بہت ساری رقم کسی کو جتلائے اور بتائے بغیر فی سبیل ﷲ خرچ کر دیا کرتا۔ اس کی جیب میں نوٹ ٹکتے نہ تھے۔ یا تو وہ ضرورت کی بعض چیزوں کی خریداری کر لیتا یا کسی کو دے دیتا۔ اس کی تمام زندگی میں کوئی نہ کوئی مسکین اور ضرورت مند اس کے ساتھ منسلک رہے تھا۔ لیکن وہ آخر ایک تنخواہ دار ملازم ہی تھا۔ اوپر کی آمدنی بھی ، چوں کہ زیادہ حریص نہ تھا اتنی زیادہ نہ تھی۔

رمضان کے مہینے میں ویسے ہی دل نرم ہوئے ہوتے ہیں اور شدید گرمی سے دماغ بھی پگھل جاتے ہیں۔ یعنی ہمدردی کے جذبات کو عمل میں لانے کے لئے درکار معقولیت کا تعاون میسر نہیں آتا۔ایسا ہی کچھ پروفیسر حمید کے ساتھ اس گرمی کے رمضان میں ہوا جس کے اثرات سردی تک اس کا پیچھا کرتے رہے۔

ایک قریباً نابینا، کمزور شخص اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ گلی میں لڑکھڑاتی آواز کے ساتھ دال سیویاں بیچتا ہوا پایا جاتا کہ اس کی آواز پروفیسر کے کانوں سے برقی مقناطیسی لہر کی سی تیزی سے گزر کراس کے نرم و نازک دل کی دیواروں سے گزر کر اس کے دل میں اتر جاتی۔ اس سے یہ منظر دیکھا نہ جاتا۔وہ تقریباً نابینا شخص گلی میں کسی ’تھڑے‘ پر بیٹھ جاتا ، بچے کسی کے گھر سے پانی مانگتے اور کسی کے گھر سے کچھ پیسے ، لیکن ان کی آواز ’ دال، کراری دال‘ سننے والوں کو دکھ سے بھری پکار محسوس ہوتی۔ ہر دیکھنے والا با شعور شخص اس بات سے انگشت بدنداں تھا کہ ان کے پاس ایک تھالی دال کے بک جانے، جس کا کہ امکان نہیں تھا، سے بھی ان کا کیا بنے گا ۔ اگرچہ وہ ایک تھالی دال بھی اس کا چھوٹا بچہ ہی تھوڑی تھوڑی کر کے کھا جاتا۔ گلی میں کبھی ان سے کسی کو کوئی چیز خریدتے کم ہی دیکھا گیا تھا۔ ہاں کبھی کبار کوئی بچہ ، پانچ ، دس روپے کی کچھ دال خرید لیتا۔

کبھی، کبھی وہ ایک چھڑی کے ساتھ ایک دو غبارے باندھ لاتے او رکبھی کبھی ایک دو پانچ دس روپے والے کھلونے جن کی فروخت کا ان کے حالات کی تبدیلی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔وہ شاید گلی کا چکر ہی لگانے آتے تھے یا گھر بیٹھے، بیٹھے تھک جاتے تھے۔ یا وہ کوئی خدا ترس ڈھونڈھ رہے تھے۔ کسی کو تو ان کے حالِ زار پر رحم آ جائے۔ کہتے ہیں ناں مرتا کیا نہ کرتا ۔ وہ شاید اسی کشمکش سے دوچار تھے۔

ان کی قسمت جیسی بھی تھی لیکن اتنی اچھی ضرور تھی کہ ان پر پروفیسر حمیداﷲ کی مہربان نظر بھی پڑتی تھی۔اس کا دل ان کی اس کسمپرسی سے پسیچ چکا تھا۔ وہ ان کے حالات جاننا چاہتا تھا۔ ان کے گھر کا ایک، آدھ وزٹ کرنا چاہتا تھا۔ اور پھر ان کے لئے کوئی رقم جہاں تک وہ کر سکتا تھا، کرنا چاہتا تھا۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ اس کے اپنے پاس کوئی لمبی چوڑی جائیداد نہ تھی۔ اس کے گھر کا گزارہ سفید پوش ملازموں کی طرح ہی چل رہا تھا جن کی اوپر کی آمدنی نہیں ہوتی۔

شدید گرمی میں پیاس تو لگتی ہے اور جب حبس کے دن آجائیں تو یہ پیاس لگی ہی رہتی ہے۔ یہ بچارے باپ، بیٹے گلیوں میں پھرتے پھراتے جب پروفیسر کی گلی میں آتے تو انہیں پیاس ستانے لگتی اور اور کچھ حمید اﷲ تھا بھی نرم دل۔ اس نے جب ایک دو دن انہیں پانی پلانے کی پیشکش کو عملی شکل دے دی تو پھر ان لوگوں کی روٹین ہی بن گئی۔ وہ روزانہ پروفیسر کی بیٹھک پے آ کر صدا بھی لگانے لگے ’پانی پلا دیں، پانی پلا دو، پانی پلا دے ‘ وغیرہ ان کے الفاظ ہوتے۔ وہ بچے تعلیم سے مکمل نا واقف تھے اور ان کوئی تربیت بھی نہیں تھی کہ کسی کو بلانا کیسے ہے۔ان کا نابینا اور بیماری کا مارا باپ ایک مکان کے ’تھڑے‘ پر بیٹھ جاتا ، اور وہ لڑکے پروفیسر کی بیٹھک کے باہر سے آوازے لگانے لگتے۔ کئی بار تو وہ دروازہ ’نوک‘ بھی کر دیتے۔ اور پھر دروازے پر بار بار نوک کیئے جاتے۔

رمضان کا مہینہ عام لوگوں کو عام طور پر اور خاص لوگوں کوخاص طور پر نرم دل بنا دیتا ہے۔ پروفیسر حمید اﷲ تو پہلے ہی نرم دلی کا پیکر تھا۔رمضان کا مہینہ اسے اور بھی زیادہ مہربان بنا دیتا۔ اس دور کے عقل مند انسان نے مذہب کی باتوں کو زیادہ عقل پسندی کے ساتھ ڈیل کرنا سیکھ لیا ہے۔ پہلے وہ سارا سال زکوٰۃ دیا کرتے تھے،یعنی جب بھی وقت ہو جاتا۔ لیکن اب حکومت کی اتباع کرتے ہوئے انہوں نے بھی رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنا سیکھ لیا تھا ۔ کیوں کہ انسان نے مذاہب کو بھی کاروباری انداز میں نفع ، نقصان کی تجارت بنا لیا تھا۔ پروفیسر حمید بھی نئی روشنی کا نمائندہ تھا۔ اگرچہ وہ سارا سال غریبوں کی مدد تو کرتا لیکن زکوٰۃ وہ بھی رمضان میں ہی ادا کرتا۔کیوں کہ رمضان کا ثواب یا نفع کوئی اور مہینہ نہیں دیتا۔

اس غریب کنبے کی مدد کرنے کے لئے پروفیسر حمید کے پاس دو آپشنز تھے جن پر غور کرنا وقت کی ضرورت بن گیا تھا۔ایک آپشن یہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کی رقم یکم مشت اس غریب کنبے کے نابینا اور کمزوری سے نڈھال سربراہ ،یعنی بچوں کے باپ، کو دے دے، یا وہ یہ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے، آہستہ آہستہ ان کو د یتا رہے تاکہ ان کا زیادہ دنوں تک گزارہ چلتا رہے۔ اکٹھی رقم کہیں ضائع نہ ہو جائے یا کوئی اسے اچک نہ لے۔یا کچھ اور بھی ہو سکتا جیسے کوئی بچہ ہی اسے کہیں گم نہ کر دے۔وغیرہ کچھ بھی تو ہو سکتا تھا۔ چناں چہ اس کا استدلالی ذہن اس نتیجے پر پہنچا کہ رقم تھوڑی تھوڑی کر کے ہی ان بچاروں کو دی جائے تا کہ ایک تو رقم کہیں گم نہ ہو اور دوسرا ان کا گزارہ زیادہ دنوں تک اچھا ہوتا رہے۔

پروفیسر حمید اﷲ ہاتھ کے اشارے سے اس نابینا شخص کے بڑے بیٹے کو اپنی طرف بلاتا اور جب وہ اپنے باپ سے ایک ، دو منٹ کی بات اور اسے ’تھڑے‘ پر بٹھا کر پروفیسر کے پاس آتا تو وہ بڑی درد بھری نظروں سے اپنی جیب سے سو یا پچاس کا نوٹ نکال کر اس چھ، ساتھ سال کے بچے کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ اس سے بچے کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی پسینے میں بھیگی مسکراہٹ پھیل جاتی اور وہ اپنی خوشی اپنے ہونٹوں تلے دبائے اپنے باپ کی طرف لوٹ جاتا اور اسے جا کر وہ نوٹ تھما دیتا۔ اس کا باپ جو کہ چہرے پر کالے شیشوں والی عینک لگائے رکھتا ، اس بات کو سن کر اور اپنے ہاتھ میں ایک بھاری نوٹ پکڑ کر تھوڑا سا اطمینان محسوس کرتا یا یہ صرف پروفیسر حمید کی اپنی نظروں کا سیراب تھا کیوں کہ اس کا ذہن اس منظر کو اسی سوچ سے دیکھ رہا ہوتا۔

ان بچوں اور ان کے والد کی سارے دن کی مشقت کا محور و مرکز پروفیسر حمید کی بیٹھک تھی۔ وہ اگرچہ کئی محلوں میں ایک چھڑی کے ساتھ ایک دو غبارے اٹکائے، یا ایک تھیلے میں ایک دو باجے جو کہ بچے گلیوں میں بجاتے پھرتے ہیں لیکن گھروں میں ان کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ، ڈال کر اور ایک باجے کو دوسروں کے نقیب کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، پھرتے رہتے۔ لیکن ان کی کم نصیبی کے دنوں میں ان کی محنت بھی بے کسی کی عملی تصویر بنی ہوئی تھی۔ وہ کسی طرح سے بھی نہ توپیشہ ور فقیروں کی طرح خوش حال تھے اور نہ مزدوروں کی طرح مطمئن۔ ان کے ہاتھ فقیروں کی طرح بھیک نہیں مانگ رہے تھے لیکن ان کے دل یہی چاہتے تھے کہ کوئی ان پر بن مانے ترس کھا لے۔ وہ ایک ایسی پکار تھے جس کی کوئی صدا نہیں تھی۔

لیکن ان کی یہ خاموش پکار پروفیسر کی نظری سماعت نے سن لی تھی۔ اور انہیں اس پروفیسر کی شکل میں ایک مہربان مل چکا تھا ۔ وہ اسے حاتم طائی کے خاندان کا کوئی دور کا فرد سمجھ رہے تھے بلکہ وہ ان کے لئے حاتم طائی ہی تھا، وہ ان کا مربی اور مہربان تھا ۔ ان کا اگر بس چلتا تو وہ اسے اپنا پیش وا ہی مان لیتے لیکن اتنا کچھ منائے جانے کا پروفیسر حمید کا کوئی ارادہ نہ تھا۔اور نہ ہی وہ ایک پانی پلانے والے اور کچھ مدت کے لئے سو یا پچاس کا ایک نوٹ روزانہ دینے والے کے علاوہ کچھ اور سمجھا جانے کی پوزیشن میں تھا۔ وہ تو بس اس بات پر مطمئن تھا کہ وہ انہیں پانی پلا دیا کرے اور رمضان کے مہینے کے اختتام تک انہیں کچھ مذید نوٹ دیتا رے۔

لیکن وہ اس کے ساتھ لمبی امیدیں جوڑ بیٹھے تھے ۔ ان کے تصور میں پروفیسر کے پاس نہ جانے کتنے نوٹ تھے جنہیں وہ ان کے حوالے کرتا چلا جائے گا اور شاید کئی سالوں تک وہ انہیں اسی طرح کی مہربانی سے نوازتا رہے گا ۔ ان کے دل کی بات تھی کہ وہ اس سے کچھ رقم اضافی طور پر بھی مانگ لیں۔

بچوں نے اب باپ کی بیماری کا مسئلہ بھی بتانا شروع کر دیا ۔ جس دن وہ شخص خود نہ آتا ، اس کے بچے پروفیسر سے کہتے کہ وہ انہیں زیادہ رقم دے دے کیوں کہ انہوں نے اپنے باپ کی دوائی لے کے جانی ہے۔ ان باتوں پر پروفیسر حمید کا دل اور زیادہ نرم ہو جاتا اور وہ سو یا پچاس کا ایک اورنوٹ دے دیتا۔ کبھی کبھی بچے ایک دو دن گلی کا چکر نہ لگاتے اور جب اگلے دن وہ آتے تو وہ پچھلے دنوں کا حساب بھی مانگ لیتے اور کہتے کہ ایک یا دو جو چھٹیاں ہوئی ہیں ان کے پیسے بھی انہیں دئے جائیں۔ پروفیسر کو یہ بات اچھی تو نہ لگتی کہ انہوں نے اس خیرات کو تنخواہ یا دیہاڑی جیسی چیز ہی سمجھ لیا تھا، جو کہ وہ بالکل نہیں بنانا چاہتا تھا۔

رفتہ رفتہ رمضان کا مہینہ رخصت ہو گیا ، فطرانہ کی ادائیگی بھی پروفیسر نے انہی ضرورت مندوں کو کی۔کچھ دنوں تک پروفیسر نے کوشش کی کہ اس روٹین کو برقرار رکھ سکے۔ لیکن اب اس کا ذہن اس نیکی سے فرار کی طرف مائل ہو رہا تھا۔وہ اب روزانہ پچاس یاایک سو روپے ایک ہی فقیر کو نہیں دے سکتا تھا ،اس کے دروازے پر اور لوگ بھی تو آتے تھے، کسی کو دس ، کسی کو پانچ اورکسی کو بیس روپے ۔وہ صرف انہی کو اتنے سارے پیسے دے کر اپنا گزارہ نہیں کر سکتا تھا۔

زندگی تو نام ہی ضرورتوں کا ہے جو کہ کبھی پوری نہیں ہوتیں۔گھربار کے اتنے اخراجات ہو جاتے ہیں کہ بعض پروفیسروں کی جیب میں کاغذوں کے نوٹ نہیں بلکہ نوٹوں کے کاغذ رہ جاتے ہیں۔یہ بات پروفیسر حمید پر بھی لاگو ہوتی تھی۔

اس کی غریب سی جیب اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اپنی حاتم طائیت اب بھی برقراررکھ سکے۔ ادھر ان بچارے غریبوں کی غربت پر رمضان اور عید کا کوئی خوش گوار اثر نہیں پڑا تھا۔ ایک بار پروفیسر نے انہیں اپنی پرانی جوتیاں بھی دیں تھیں لیکن ان کے پاؤں میں اب بھی ٹوٹے جوتے اور کپڑے کئی مہینوں تک نہ دھلے ہوئے اور چہرے ویسے کے ویسے سراپا سوال !

اب پروفیسر چاہتا تھا کہ ان فقیر نما پھیری والوں کا سامنا نہ کرے۔ وہ ان سے ’کنی کترانے‘ لگا تھا۔ اسے کبھی کبھی ان پر شدید غصہ بھی آنے لگا تھا۔ بچوں کے باپ سے وہ کئی سالوں سے واقف تھا کہ اس کی مالی حالت اور جسمانی حالت کبھی بھی اچھی نہ رہی تھی۔ لیکن شاید اس نے اپنی حالت سنوارنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی یا حالات کی سنگینی نے اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیاتھا۔

اب پروفیسر کو بہت مشکل ہو رہی تھی۔ فقیربچے اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ ان کی مدد کرنے والا بذاتِ خود کس مشکل کا شکار ہے۔ وہ اس سے پچاس یا سو روپے مانگنا اپنا استحقاق سمجھ رہے تھے۔ مدد کرنے والے کی مرضی ہے کہ مدد کرے یا نہ کرے کسی کا اس نے قرضہ تو نہیں دیناہوتا۔لیکن یہ بات بچوں کے شعور سے کوسوں دور تھی۔

وہ ہر روز پروفیسر کی بیٹھک کے دروازے پر دستک دیتے اور پھر بار بار دستک دیتے رہتے۔ کبھی کبھی تو یوں ہوتا کہ پروفیسر ایم اے کی طالبات کی کلاس پڑھا رہا ہوتا اور وہ باہر سے دستک دینے لگتے، کبھی وہ جالی والے دروازے سے جھانکھنے لگتے اور طرح طرح کی آوازیں: چل پیسے دے دے ہن، باہر آجا، پانی پیا دے، وغیرہ لگانے لگتے ،اور کبھی کبھی تو سیدھا سیدھا باجا ہی بجانے لگتے: پوووووووووووووووووووں!!!۔۔۔،پوووووووووووووووووں!!!

اور اگر کبھی مسجد جاتے ہوئے ان کا سامنا ہو جاتا تو وہ پروفیسر کے پیچھے پیچھے مسجد بھی چلے جاتے۔ لوگ دیکھ کر برا مناتے کہ یہ غبارے اور باجے وغیرہ مسجد میں بھی لے آئے ہیں۔ وہ پروفیسر کے پیچھے پیچھے بولتے جاتے : چل پیسے دے دے ہن، میں ابے دی دوا لیانی اے، انہوں کل دا بخار اے۔۔۔۔۔۔وغیرہ کی باتیں ۔

پروفیسر خدا سے ڈرتے ہوئے خاموشی سے سنتا اور ان بچوں کی اس عادت اور توقع کو ختم کر دینے کے حربے بھی سوچتا ۔ اب وہ اپنے دل کی تسلی کے لئے انہیں دس ، بیس روپے دینے لگ گیا تھا ۔ ایک بار تو انہوں نے اس سے پچاس روپنے لینے سے بھی انکار کر دیا تھا اور تقاضا کیا تھا کہ انہیں ایک سو روپیہ ہی دیا جائے اور وہ ناراضگی میں پچاس کا نوٹ اسے واپس کر کے چلے گئے تھے۔ لیکن اب انہیں کچھ احساس ہو گیا تھا کہ انہیں دس یا بیس روپے بھی لے لینے چاہیئں۔لیکن دلی تمنا اب بھی یہی تھی کہ ان کو سو کا یا پھر پچاس کو نوٹ ہی ملے جسے اب پروفیسر نے کافی دنوں سے دینا بند کیا ہوا تھا۔

پروفیسر کے گھر والوں نے بھی اسے سمجھایا تھا کہ آپ بچوں کو پچاس یا سو روپے نہ دیا کریں وہ کسی غلط عادت میں بھی پڑ سکتے ہیں۔ اگر پروفیسر کی جیب اجازت دے رہی ہوتی تو اس کے پاس اس لاجک کے خلاف بات کرنے کے درجنوں نکات تھے لیکن اب وہ اس بات کو درست ماننے میں ہی اپنی عافیت جان رہا تھا۔

پروفیسر کو آہستہ آہستہ اپنی غلطی کا ادراک اور احساس زیادہ ہونے لگا تھاکہ اس نے نہ چاہتے ہوئے ایک ایسی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ وہ اور کچھ اور لوگوں کو مدت مدید تک بھگتنا پڑے گا۔ بچے کب بڑے ہو کر اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ مدد مدد ہی ہوتی ہے قرضہ نہیں اور اس کی کسی سے صرف توقع رکھی جا سکتی ہے تقاضا نہیں اور نہ ہی تقاضے کا اصرار کیا جا سکتا۔

پروفیسر اپنی غلطی پر اپنے اندر ہی اندر نادم ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی حیثیت سے کسی کو زیادہ کی توقع کیوں دلائی۔ کسی کو اپنی حیثیت سے زیادہ توقع دلانا ایک فاش غلطی ہے جو بظاہر معمولی لگتی ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313168 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More