امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط اول)
(syed imaad ul deen, samandri)
امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط اول)
(ازافادات علامہ کاظمی) قسط اول
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا
یَعْلَمُوْنَ(پ ۲۳۔ س الزمر۔ آیت ۹)
٭ یعنی اے میرے محبوب ﷺ آپ ارشاد فرما دیں کہ کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ لوگ
جو کہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے؟
کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے۔
کیونکہ علم والوں کی شان تو یہ ہے کہ
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ (پ ۲۲۔ س فاطر۔ آیت
۲۸)
٭ ’’اللہ کے بندوں میں اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔‘‘
٭ یعنی اللہ کا خوف اور اللہ کی خشیت دل میں رکھنے والے اگر ہیں تو فقط
علماء ہیں اور یاد رکھیئے وہ کیسے علماء ہیں؟ ہم جیسے نہیں۔ استغفر اللّٰہ!
چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ ہم جیسے لوگوں نے تو آج علم کا نام بدنام کر
دیا۔
٭ میرے دوستو اور عزیزو! یہاں علماء سے مراد ایسے علماء ہیں جیسے سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا فاروقِ اعظم، سیدنا عثمانِ غنی ذو
النورین، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، سیدنا حسن بصری (۱)، سعید بن مسیب (۲)،
سعید بن جبیر (۳) رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے اور مجھے کہنے دیجئے کہ
علماء سے مراد ہم جیسے لوگ نہیں بلکہ علماء سے مراد وہ مقدسین اور طیبین و
طاہرین ہیں جنہوں نے علم کے چشمے جاری کر دئیے۔ ان میں سیدنا عبد اللہ بن
مسعود ہیں، عبد اللہ بن عمر ہیں (۴)، عبد اللہ بن عباس (۵) ہیں اور ان کے
شاگرد سعید بن جبیر ہیں۔ علقمہ بن قیس اور ان کے شاگرد حضرت ابراہیم نخعی
ہیں اور ابراہیم نخعی کے شاگرد سیدنا حماد ہیں اور حضرت حماد کے شاگرد امام
ابو حنیفہ ہیں رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
٭ اے عبد اللہ بن مسعود! کروڑوں سلام ہوں آپ پر، آپ نے جو علم حضرت علقمہ
رضی اللہ عنہ کو دیا، اس کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اور یہ
علم وہ تھا، جو حضرت عبد اللہ بن مسعود (۶) رضی اللہ عنہ نے مشکوٰۃ نبوت سے
حاصل کیا۔ نبی کریم ﷺ کے نورانی سینہ مبارک سے جو علم حضرت ابن مسعود نے
حاصل کیا، اس علم سے آپ نے حضرت علقمہ (۷) کا سینہ روشن کر دیا۔ اور اے
علقمہ! آپ پر کروڑوں سلام ہوں کہ آپ نے اس علم سے ابراہیم نخعی (۸) کے سینے
کو منور کر دیا۔ اور اے ابراہیم نخعی! کروڑوں سلام ہوں آپ پر کہ آپ نے حضرت
حماد (۹) کے سینے کو علم کا خزینہ بنا دیا اور اے حماد کروڑوں سلام ہوں آپ
پر کہ آپ نے حضرت امام ابو حنیفہ کو اپنی مسند علم پر بٹھا دیا۔
٭ میرے دوستو! یہ ہیں وہ اہل علم، جن کے لئے قرآن نے کہا
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ (پ ۲۲۔ س فاطر۔ آیت
۲۸)
٭ اے امام ابو حنیفہ کو ضعیف السند کہنے والو! میں تمہیں بتا دینا چاہتا
ہوں کہ آج تمہیں کتنا ہی فخر کیوں نہ ہو اپنی محدثیت پر لیکن تم امام ابو
حنیفہ کے دربانوں کی گردِ راہ کو بھی نہیں پا سکتے کیونکہ ابو حنیفہ تو
ایسے قوی السند تھے کہ دنیا تو سند حدیث میں ضبط کتاب پر اعتماد کرتی ہے
لیکن امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب تک ضبط حافظہ سے کوئی حدیث روایت نہ
کرے ہم اعتبار نہ کریں گے۔
٭ ارے تم نے انہیں اہل الرائے کہہ کر ان پر طعن کیا، مگر میں تو رائے کو
برا نہیں سمجھتا۔ میں تو اس رائے کو برا سمجھتا ہوں جو اللہ کے فرمان کی
مقابل ہو۔ ایسی رائے یقینا مذموم ہے۔ کیونکہ وہ سیدھا دوزخ کا راستہ ہے۔
لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ کی وہ رائے نہ تھی
بلکہ امام ابو حنیفہ کی رائے وہ تھی جو جنت کا راستہ دکھاتی، توحید کی
راہیں روشن کرتی اور بارگاہِ رسالت کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔ جو امام ابو
حنیفہ پر اس لئے طعن کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے سے کیوں کہا
تو میں(علامہ کاظمی) اسے کہتا ہوں کہ
(۱) مجتہد کو اپنی رائے سے کہنے کا حق ہے۔ اگر امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کی
بنا پر تم انہیں اہل الرائے کہتے ہو اور اس اجتہاد پر انہیں مطعون کرتے ہو
تو پھر تمہارا یہ طعن تو نعوذ باللہ بارگاہِ رسالت تک پہنچے گا۔ اس لئے کہ
حضور ﷺ نے بھی اجتہاد فرمایا تھا۔ حالانکہ حضور ﷺ کو اجتہاد کی ضرورت نہ
تھی۔ کیونکہ آپ تو وہ مقدس ہستی ہیں، جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی وحی آتی
تھی۔ بات یہ ہے کہ بارگاہِ نبوت کی اداؤں کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا۔
چنانچہ اگر حضور ﷺ اجتہاد نہ فرماتے تو اجتہاد کے جواز کے لئے دلیل کہاں سے
آتی؟ معلوم ہوا مجتہدین کے اجتہاد کے لئے دلیل فراہم کرنے کے لئے سرکارِ دو
عالم ﷺ نے نہ صرف خود اجتہاد فرمایا بلکہ صحابہ کرام کو بھی اجتہاد کے
مواقع فراہم کیے۔
مرتبہ :سیدعمادالدین مشہدی کاظمی فیصل آباد نزد سمندری 449 گ۔ب |
|