امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط دوم)
(syed imaad ul deen, samandri)
امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط دوم)
(ازافادات علامہ کاظمی)
٭ بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو بنو
قریظہ کی جانب بھیجا اور ارشاد فرمایا لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ
٭ یعنی ’’تم میں سے کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ جا کر۔‘‘
اور مسلم شریف میں یہ حدیث یوں ہے کہ’’تم میں سے کوئی ظہر کی نماز بنو
قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے۔‘‘
٭ اب دیکھیے کہ ظہر عصر کی مغائر ہے کہ نہیں ہے؟ اگر کوئی عصر کی نیت کر کے
ظہر کی نماز پڑھ لے تو کیا اسکی نماز ہو گی؟ ہرگز نہیں ہو گی کیونکہ عصر
اور ہے اور ظہر اور ہے۔
اب بنو قریظہ کی جانب جس جماعت کو حضورﷺ نے بھیجا، اس کیلئے حضور ﷺ کے
الفاظ بخاری میں ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو
قریظہ جا کر اور مسلم میں ہیں کہ تم میں سے کوئی ظہر کی نماز بنو قریظہ کے
پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے۔ معلوم ہوا کہ دونوں حدیثوں میں تغائر ہے اور
حدیثوں میں یہ اختلاف ایک حقیقت ثابتہ ہے۔
٭ اب امام ابو حنیفہ پر الزام لگانے والوں سے میں(علامہ کاظمی ) پوچھتا ہوں
کہ بتاؤ جو جماعت حضورﷺ نے بنو قریظہ کی جانب بھیجی، اس جماعت کو آپ نے ظہر
کی نماز کے بارے میں فرمایا ،یا عصر کی نماز کے متعلق؟
بتاؤ ان مختلف احادیث میں تطبیق کیسے کرو گے؟
کیا رائے کے بغیر کام چلے گا؟
ہرگز نہیں، رائے کے بغیر یقینا کام نہیں چلے گا۔
کیونکہ تم رائے کے بغیر دونوں حدیثوں میں تطبیق نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے
زیادہ محدثین کے حوالے سے یہ کہو گے کہ دونوں حدیثیں تعدد واقعہ پر محمول
ہیں یعنی ایک جماعت کو حضورﷺ نے ظہر سے پہلے بھیجا اور فرمایا تم میں سے
کوئی بھی ظہر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے اور دوسری جماعت
کو حضورﷺ نے عصر سے پہلے روانہ کیا اور فرمایا، تم میں سے کوئی بھی عصر کی
نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ تعدد
واقعہ پر کوئی دلیل لاؤ اور کوئی ایسی حدیث بھی پیش کرو، جس سے ثابت ہو کہ
حضورﷺ نے ایک جماعت کو ظہر سے پہلے بھیجا اور دوسری جماعت کو ظہر کے بعد
بھیجا ہو لیکن دس ہزار مرتبہ بھی تم مر کر زندہ ہو جاؤ تو تعدد واقعہ پر تم
حدیث نہیں لا سکتے۔ معلوم ہوا کہ محدثین نے یہ توجیہ اپنی رائے سے کی ہے
اور رائے کو ہم مانتے ہیں، تم نہیں مانتے۔ اگر تم پاؤں چھپاتے ہو تو سر
کھلتا ہے اور سر چھپاتے ہو تو پاؤں کھلتے ہیں
٭ اب ہوا یہ کہ جب حضورﷺ نے اس جماعت کو بھیجا اور فرمایا کہ تم میں سے
کوئی شخص عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچے بغیر نہ پڑھے، لیکن بنو قریظہ پہنچنے
سے پہلے ہی وقت اتنا تھوڑا رہ گیا کہ اگر بنو قریظہ پہنچتے ہیں تو عصر کی
نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا کہ حضورﷺ کا تو حکم یہ ہے کہ
’’لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ‘‘ یعنی تم میں سے کوئی شخص عصر کی
نماز بنو قریظہ پہنچے بغیر نہ پڑھے، لیکن اس صورت میں تو نماز قضا ہو جاتی
ہے اور اگر نماز پہلے ادا کرتے ہیں تو حضورﷺ کی حکم عدولی ہوتی ہے۔ اب اس
اختلاف کی صورت میں بعض صحابہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا(پ
۵۔ س النساء۔ آیت ۱۰۳)
ترجمہ٭ ’’بے شک نماز ایمان والوں پر وقت مقرر کیا ہوا فریضہ ہے۔‘‘
٭ نماز فرض موقت ہے۔ لہٰذا وقت سے مفر نہیں کیا جائے گا اور ہم ابھی نمازِ
عصر ادا کریں گے تاکہ نماز وقت پر ادا ہو جائے اور حضورﷺ کے فرمان کا مطلب
یہ تھا کہ تم اتنی جلدی چلنا کہ نمازِ عصر بنو قریظہ جا کر ادا کرو۔ اب
اتنی جلدی نہیں چلے تو یہ ہماری غلطی ہے چنانچہ ہم نماز ادا کر لیتے ہیں۔
اس لئے ایک جماعت نے بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے عصر ادا کی، مگر کچھ صحابہ
نے کہا کہ قضا اور ادا تو ہم جانتے نہیں، ہم تو حضورﷺ کے فرمان پر عمل کریں
گے کہ نمازِ عصر بنو قریظہ پہنچے بغیر نہیں پڑھیں گے۔ اب صحابہ کی دونوں
جماعتوں میں اختلاف ہو گیا کیونکہ دونوں نے اپنے اجتہاد سے کام لیا اور جب
یہ دونوں جماعتیں یعنی اپنی رائے سے کام لینے والی حضور اکرم ﷺکے سامنے
پہنچیں تو حدیث میں آتا ہے کہ ’’فلم یعنف واحدًا منہم‘‘ یعنی حضورﷺ نے کسی
جماعت سے اظہارِ ناراضگی نہیں فرمایا۔
مرتبہ :سیدعمادالدین مشہدی کاظمی فیصل آباد نزد سمندری 449 گ۔ب |
|