امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم(قسط چہارم)
(syed imaad ul deen, samandri)
امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم(قسط چہارم)
(ازافادات علامہ کاظمی)
٭ ارے امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والو! تم سے اگر خدا کے واحد ہونے کا
معنیٰ پوچھ لوں تو تم نہیں بتا سکتے۔ تم کیا جانو، توحید کیا ہے؟ دیکھیئے،
قرآن نے کہا، ’’اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ‘‘ (سورئہ نحل آیت ۲۲) یعنی
تمہارا خدا تو خدائے واحد ہے۔ اب آپ بتائیے، اللہ کو واحد مانتے ہو یا نہیں
مانتے؟ اور واحد کے معنیٰ ہیں ایک، لیکن ایک بھی تو لفظ ہے، ا س کے کیا
معنی ہیں؟ چنانچہ لفظ واحد پر علماء نے بحث کی اور انہوں نے کہا کہ واحد کی
بہت سی قسمیں ہے۔ ان میں ایک ہے ’’واحد عددی‘‘، ایک ہے ’’واحد جنسی‘‘ اور
ایک ہے ’’واحد نوعی‘‘۔
۱۔ واحد عددی کا معنیٰ ہے الواحد نصف الاثنین یعنی دو کا آدھا ایک ہوتا ہے
(ہاتھ کے اشارے سے فرمایا) یہ دو ہیں، ان دو کا آدھا ایک ہے۔ اب میں تم سے
پوچھتا ہوں کہ ’’اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِد‘‘کے کیا معنی کرو گے؟ دو خداؤں
کا آدھا؟ تو پہلے دو خدا مانو، پھر اس کا آدھا مانو تو پھر ایک کہو۔ اب ہے
کوئی دو خداؤں کو ماننے والا؟
۲٭ واحد جنسی کا معنیٰ ہے کہ جس کی جہت وحدت جنس ہو، جیسے میں کہوں الحیوان
واحد یعنی حیوان ایک ہے۔ خواہ وہ گدھا ہو یا گھوڑا، بکرا ہو یا ہاتھی
کیونکہ حیوانیت جنس ہے اور وہ سب میں قدر مشترک ہے۔ مگر جنس تو فصل کے بغیر
ہوتی نہیں اور جہاں جنس ہوتی ہے وہاں فصل بھی ضرور ہو گی۔ اب بتاؤ، خدا کو
کیا کہو گے؟ کیا خدا کی کوئی جنس ہے؟ اگر جنس نہیں ہے تو پھر واحد جنسی
کیسے کہو گے؟ خدا تعالیٰ چونکہ جنس سے پاک ہے اس لئے خدا کو واحد جنسی بھی
نہیں کہہ سکتے۔
۳٭ واحد نوعی واحد کی تیسری قسم ہے یعنی ایسا واحد کہ جس کی وحدت مستفاد ہو
جہت نوع سے، جیسے الانسان واحد یعنی انسان ایک ہے، خواہ کہیں کا رہنے والا
ہو، مغرب کا ہو یا مشرق کا، نیک ہو یا بد کیونکہ انسان نوع ہے اور اس کی دو
ذاتیات ہیں، ’’حیوان اور ناطق‘‘ دونوں کو ملاؤ تو انسان بنتا ہے۔ اب نوع
بنتی ہے جنس اور فصل کو ملا کر، مگر جنس اور فصل جہاں ملے گی وہاں ترکیب ہو
گی اور جہاں ترکیب ہو گی وہاں حدوث ہو گا۔ اب بولو خدا حادث ہے یا قدیم ہے،
یقینا خدا تعالیٰ قدیم ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ واحد نوعی بھی نہیں ہو سکتا،
کیونکہ وہ نوع سے پاک ہے۔
٭ اب بتاؤ! ’’اِلٰہُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِد‘‘ کے کیا معنیٰ کرو گے۔ وہ خدا
ایک ہے، مگر کیسا ایک ہے؟ وہ عدد کے اعتبار سے ایک ہے؟ جنس کے اعتبار سے
ایک ہے یا وہ نوع کے اعتبار سے ایک ہے؟ ارے نہیں بتا سکتے۔
٭ یہاں پھر تمہیں چوتھی بات کہنی پڑے گی اور وہ رائے سے کہنی پڑے گی اور
کہنے والوں نے کہا کہ’’اِلٰہُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِد‘‘ تمہارا الٰہ تو الٰہ
واحد ہے، اس میں واحد کا لفظ حق ہے اور اس کے معنیٰ بھی حق ہیں مگر اس کے
معنیٰ یہ نہیں کہ دو کا آدھا ایک ہے یا اس کی جنس ایک ہے یا اس کی نوع ایک
ہے، بلکہ اس واحد سے مراد ایسا واحد ہے جس کی جہت وحدت عین ذات ہو اور وہ
ازلاً ابداً بتقاضائے ذات ایک ہو، جس کا ایک ہونا ازلاً ابداً اور وجوباً
ہو اور وہ کسی مرجع کی ترجیع کا محتاج نہ ہو۔
٭ اب بتاؤ! واحد کا یہ معنیٰ تم کہاں سے لاؤ گے؟ کوئی قرآن کی آیت پڑھو کہ
واحد کے یہ معنیٰ ہوں یا کوئی حدیث لاؤ جس میں واحد کے یہ معنیٰ درج ہوں۔
اللّٰہ اکبر! پتہ چلا کہ تم تو توحید کے مسئلہ میں بھی رائے کے بغیر زبان
نہیں کھول سکتے۔
٭ ارے تم امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کہتے ہو، میں(علامہ کاظمی) کہتا ہوں
کہ یہ رائے تو اجتہاد ہے اور خود حضور اکرم ﷺ نے اجتہاد فرمایا اور اسی لئے
فرمایا کہ اجتہاد کے جواز پر دلیل قائم ہو جائے اور پتہ چل جائے کہ مجتہد
کا اجتہاد عین دین ہے، کیونکہ یہ مصطفیٰ کریم ﷺ کی ادا اس کے لئے اصل ہے
اور اسی لئے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو اجتہاد کا موقع فراہم کیا۔ اگر اجتہاد نہ ہو تو دین چل
نہیں سکتا کیونکہ ہزاروں مسائل ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ قرآن و حدیث میں
بالوضاحت ان کا ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے بغیر چشمے کے ایک
واقعہ دیکھا، دوسرے نے چشمہ لگا کر اور تیسرے شخص نے دور بین لگا کر اسی
واقعہ کو دیکھا۔ اب بتاؤ چشمہ کے بغیر دیکھنا، چشمہ لگا کر دیکھنا اور دور
بین کی مدد سے دیکھنا تینوں کا حکم ایک ہے یا کوئی فرق ہے؟ کسی نے کسی چیز
کو بالمشافہ دیکھا، کسی نے اسے عکس کی صورت میں دیکھا، کسی نے پانی میں عکس
دیکھا اور کسی نے آئینہ میں عکس دیکھا، ایک نے بالواسطہ دیکھا اور دوسرے نے
بلا واسطہ دیکھا۔ اب دیکھنا ان تمام میں مشترک ہے لیکن بتائیے ان سب کا حکم
ایک ہے یا الگ الگ؟ اگر کہتے ہو کہ ان سب کا حکم ایک ہے تو میں کہوں گا تم
رائے سے کہتے ہو اس کے لئے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاؤ۔ اسی طرح ہوائی
جہاز میں نماز پڑھنے کا مسئلہ پیدا ہو گیا کہ نماز ہو گی یا نہیں؟ اگر تم
کہتے ہو ہو گی، تب بھی دلیل لاؤ اور اگر کہتے ہو نہیں ہو گی، تب بھی دلیل
دینا ہو گا۔ لیکن سن لو تم جو کچھ بھی کہو گے، اپنی رائے سے کہو گے اور دس
ہزار بار تم پر قیامت قائم ہو جائے تم اجتہاد کے بغیر دلیل نہیں لا سکتے
اور اگر لاؤ گے تو امام ابو حنیفہ کے محتاج ہو کر رائے سے دلیل لاؤ گے۔
میں(علامہ کاظمی) امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنے والوں سے پوچھتا
ہوں کہ تم ہر جگہ یہ کہتے پھرتے ہو کہ فلاں کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تم
کیوں کرتے ہو؟ یہ بدعت ہے۔ اسی طرح جس کام کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی
دلیل نہ ہو تو کہتے ہو، بدعت ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ احادیث نقل کرنے سے
پہلے محدثین نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، اسے کس خانہ میں رکھو گے؟ مثلاً
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب ’’الجامع
الصیحیح‘‘ میں کوئی حدیث درج نہیں کی۔ مگر پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت
نفل پڑھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مقدمہ فتح الباری میں نقل کرتے ہیں
’’قال البخاری ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذلک او صلیت
رکعتین۔‘‘
اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس فعل پر کوئی
دلیل لاؤ۔ کوئی حدیث پیش کرو جس میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہو کہ جب میری
کوئی حدیث نقل کرو تو دو رکعت نفل پڑھ لیا کرو۔ اب بتاؤ حدیث درج کرنے کا
یہ طریقہ کہیں قرآن میں آیا ہے؟ یا کسی حدیث میں آیا ہے؟ معلوم ہوا کہ حدیث
درج کرنے کا یہ طریقہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے سے اختیار
کیا اور جس کام کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہ ہو تم کہتے ہو کہ بدعت
ہے۔ اب بتاؤ کہ امام بخاری کا یہ عمل تم کس خانہ میں رکھو گے؟
لوگوں نے کہا کہ امام حافظ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان
الاعتدال میں امام ابو حنیفہ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔ اللّٰہ اکبر! میں
پوچھتا ہوں کہ امام ذہبی کی یہی ایک تصنیف ہے؟ ارے تذکرۃ الحفاظ کا مصنف
بھی تو ذہبی ہے، اس تذکرۃ الحفاظ میں ذرا امام صاحب کا تذکرہ تو دیکھو۔
(1) خدا کی قسم! ایمان تازہ کر دینے والا تذکرہ ہے اور پھر اسی تذکرہ میں
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں تو میں ابو حنیفہ کے متعلق کچھ بھی نہیں
لکھ سکا میں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں ایک مستقل رسالہ لکھ دیا ہے
(۲) حیرت ہے کہ پھر بھی یہ امام ذہبی پر تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے امام
ابو حنیفہ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے۔ اسی طرح امام نسائی کے متعلق بعض لوگ
کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ ضعیف السند ہیں۔
میں(علامہ کاظمی) کہتا ہوں کہ جس امام کا دعویٰ یہ ہو کہ ضبط صدر کے بغیر
ہم کسی کی روایت قبول نہیں کریں گے، اس پر یہ الزام کہ وہ ضعیف السند تھے
کس قدر افسوس ناک ہے۔
ہم سے کہا جاتا ہے کہ جو اہل حدیث نہ ہو، وہ اہلسنّت نہیں ہو سکتا۔ لیکن
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آج تک مسلک کے اعتبار سے کسی کو اہل حدیث نہیں
کہا گیا۔ اگر اہل حدیث کہا گیا تو محض فن کے اعتبار سے کہا گیا ہے، جیسے
علم اصول والوں کو اہل علم اصول کہا گیا، لکھنے والوں کو اہل قلم کہا گیا،
منطق کا علم رکھنے والوں کو اہل منطق کہا گیا، اسی طرح فقط محدثین یعنی
حدیث کا علم رکھنے والوں کو اہل حدیث کہا گیا، لیکن خدا کی قسم! مسلک کے
اعتبار سے آج تک کوئی اہل حدیث نہیں ہوا۔ جن کے بارے میں بھی اہل حدیث کہا
گیا ہے وہ محض فن کے اعتبار سے اہل حدیث کہا گیا کیونکہ اگر حدیث مسلک کی
بنیاد ہوتی تو حضور ﷺ ’’علیکم بسنتی‘‘ نہ فرماتے بلکہ ’’علیکم بحدیثی‘‘
فرماتے۔ مگر حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا۔ تو پتہ چلا کہ مسلک کی بنیاد حدیث
نہیں ہو سکتی بلکہ مسلک کی بنیاد سنت ہے۔
اور میں عرض کر دوں کہ حدیث پر تم عمل نہیں کر سکتے کیونکہ حدیث مطلقاً
قابل عمل نہیں ہے بلکہ سنت قابل عمل ہے۔ دیکھئے جو حضور ﷺ نے کہا وہ حدیث
ہے، جو کیا وہ حدیث ہے اور جو آپ کے سامنے کیا گیا اور آپ نے اسے برقرار
رکھا، وہ حدیث ہے لیکن آپ حدیث کو اپنے عمل کی بنیاد قرار نہیں دے سکتے
کیونکہ حدیثوں میں تو اختلاف ہے، حدیثوں میں تعارض بھی ہے جیسا کہ میں نے
پہلے مثال دی، ان میں ناسخ و منسوخ بھی ہیں۔ اس لئے حدیث قابل عمل نہیں ہے
بلکہ اگر عمل کرنا ہے تو سنت پر عمل کریں گے کیونکہ سنت قابل عمل ہے۔ اگر
کوئی عمل بالحدیث کا مدعی ہے تو میں بخاری شریف کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں،
کوئی آئے اور اس پر عمل کر کے دکھائے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے
کان یصلّی وہو حامل امامۃ بنت زینب بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم۔
(۱)
یعنی حضور ﷺ نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ آپ اپنی نواسی امامہ کو گود میں
اٹھائے ہوئے تھے۔ اب بتائیے بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ اپنی نواسی کو
گود میں لئے نماز پڑھتے تھے۔ تو اب ذرا اس حدیث پر عمل کر کے دکھاؤ اور
اپنی نواسیوں کو گود میں لے کر نماز پڑھا کرو اور اگر اپنی نہ ہو تو کسی کی
اٹھا لاؤ کیونکہ نواسی کے بغیر تو حدیث پر عمل نہیں ہو گا۔
اسی طرح حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کے ساتھ حسن معاشرت کے طور پر جو طریقے
اپنائے، کیا تم وہ طور طریقے اختیار کر سکتے ہو؟ یقینا، نہیں کر سکتے، تو
معلوم ہوا کہ حدیث پر عمل نہیں ہو سکتا بلکہ سنت پر عمل ہو سکتا ہے اور سنت
وہ ہے جسے میرے آقا حضور نبی کریم ﷺ نے ’’مسلوک فی الدین‘‘ قرار دیا ہو
یعنی ’’دین پر چلنے کا راستہ بتا دیا ہو۔ اسی لئے آپ نے ’’علیکم بحدیثی‘‘
نہیں فرمایا بلکہ ’’علیکم بسنتی‘‘ (۱) فرمایا۔ لہٰذا ہم اہل حدیث نہیں بلکہ
ہم اہل سنت ہیں اور میں یہ بتا دوں کہ دنیا میں دو ثلث (تہائی) حنفی ہیں
اور یہی سواد اعظم ہیں (۲) اب سچ بتاؤ حضور تاجدار مدنی ﷺ کی امت کی اکثریت
جس جانب ہو گی، وہ حق ہو گا یا معمولی سی اقلیت حق پر ہو گی اور اے آقائے
نامدار تاجدارِ مدینہ ﷺ میں آپ کی عظمتوں پر قربان جاؤں کہ آپ نے دین کو
اتنا کامل اور روشن کر کے ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا ’’ترکتکم علٰی ملۃ
بیضاء‘‘ ’’لیلہا ونہارہا سواء‘‘ (۳) یعنی تمہیں ایسی راہ پر چھوڑے جا رہا
ہوں، جس کا دن رات واضح ہے، تم آنکھیں بند کئے چلے آؤ، مگر راہ نہ چھوٹے۔
مرتبہ :سیدعمادالدین مشہدی کاظمی فیصل آباد نزد سمندری 449 گ۔ب |
|