امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط سوم)

امام اعظم بحیثیت محدثِ اعظم (قسط سوم)

(ازافادات علامہ کاظمی)

٭علامہ کاظمی فرماتے ہیں: مجھ سے درسِ حدیث میں کسی طالب علم نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے اظہارِ ناراضگی کسی جماعت کے لئے نہیں فرمایا لیکن یہ بتائیے کہ آپ ﷺنے یہ کیوں نہیں فرمایا کہ فلاں جماعت ثواب پر تھی اور فلاں خطا پر۔ میں نے عرض کیا، حضورﷺ کو معلوم تھا کہ میری امت میں قیامت تک اجتہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور لوگ قیامت تک مجتہدین کے اجتہاد پر عمل کرتے رہیں گے اور ان کے اس اجتہاد کی خطا ظاہر نہیں ہو گی۔ اس لئے آپ نے پردہ پوشی فرمائی تاکہ دونوں جماعتوں کو ان کا ثواب ملتا رہے۔ اب اللہ بھی اجتہاد کرنے پر ان سے ناراض نہیں اور نہ رسول ان سے ناراض ہیں۔ اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو پھر ہوا کرے۔
٭ حدیث پڑھنے والوں سے پوچھو، سند حدیث اور خصوصاً حدیث کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کی آراء میں اختلاف ہے۔ امام مسلم کہتے ہیں کہ راوی اور مروی عنہ کا معاصر ہونا کافی ہے، ہم اس کی حدیث کو قبول کر لیں گے، خواہ راوی کا مروی عنہ سے لقاء (ملاقات) ثابت ہو یا نہ ہو۔ اور امام بخاری کہتے ہیں کہ اگر راوی، مروی عنہ کا ہم عصر ہے تو ہم ہرگز اس کی حدیث کو قبول نہیں کریں گے اور اس کے انقطاع پر محمول کریں گے جب تک کہ راوی کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت نہ ہو۔ اب بتاؤ کہ امام مسلم کی رائے اور ہے اور امام بخاری کی رائے اور۔ لیکن حدیث نہ ان کے پاس ہے، نہ ان کے پاس۔ تو یہ دونوں اصحابِ رائے ہوئے کہ نہیں؟
٭ اسی طرح اصولِ حدیث کے علماء سے پوچھو کیا حدیث مجرد (ایسی حدیث جس کے سلسلہ روایت کو ذکر نہ کیا گیا ہو) کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے؟ حدیث مجرد ضعیف ہے کہ نہیں؟ اور میں خدا کی قسم کھا کر عرض کرتا ہوں کہ بخاری میں کتنی حدیثیں مجرد ہیں، لیکن چونکہ امام بخاری کی رائے یہ ہے کہ یہ صحیح ہیں اس لئے تم نے ان کی صحت پر صاد (سکوت) کر دیا۔ امام بخاری کی رائے تمہارے نزدیک صحیح ہے لیکن امام ابو حنیفہ کی رائے تمہارے نزدیک قابل قبول نہیں۔ یہ ہے سوچ کا مقام!
٭ پھر کہتا ہوں کہ ابی اسحق سے زہیر کی روایت کو امام بخاری نے صحیح مان کر اپنی جامع میں شامل فرمایا اور امام ترمذی نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ زہیر کا ابی اسحق سے سماع بوجہ علت خفیہ آخری عمر میں ہے۔ اس کے برعکس ابی اسحق سے اسرائیل کی روایت کو قبول فرماتے ہیں۔ دونوں کی رائیں مختلف ہو گئیں۔ میں حیران ہوں کہ امام ابو حنیفہ کی وہ حدیثیں جو متفق الاسانید ہیں، اگر تمہارے سامنے پیش کی جائیں تو تم اس پر ضعف کا الزام لگا کر رد کر دیتے ہو اور اگر امام ترمذی منقطع اور مراسیل سے استدلال کریں تو تم خاموش بیٹھے رہتے ہو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟
٭ سن لو! بتا دینا چاہتا ہوں کہ امام بخاری کی بہت سی آراء امام مسلم کے خلاف ہیں اور امام مسلم کی بہت سی آراء امام بخاری کے خلاف ہیں۔ مقدمہ ابن الصلاح اٹھا کر دیکھو، وہاں ان کی عبارت میں کتنی شدت پائی جاتی ہے امام بخاری کے متعلق۔ لیکن میں امام بخاری اور امام مسلم دونوں کا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں اور ان کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اے امام بخاری! رحمۃ اللہ علیہ آپ کی عظمتوں کے سامنے ہماری گردنیں جھکی ہوئی ہیں۔ اور اے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی بارگاہ میں بھی ہماری عقیدتیں سرنگوں ہیں۔ لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ تمام محدثین سرنگوں ہیں بارگاہِ امام ابو حنیفہ میں (رضی اللہ عنہ) کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم کو اگر تم مجتہد بھی قرار دو گے تو سوائے علم حدیث کے ان کا اجتہاد کسی اور مقام پر نہیں پہنچے گا۔ اور اے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ! آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں کہ آپ نے اجتہاد فرما کر ہدایت کی راہوں کو روشن کردیا، کیونکہ آپ تو تفسیر میں بھی مجتہد ہیں، آپ تو کلام میں مجتہد ہیں، آپ تمام علوم دینیہ میں مجتہد ہیں، علی الاطلاق مجتہد ہیں۔ اب بتاؤ جو ایک علم میں مجتہد ہو، اس کی رائے کو تو مجتہد کی رائے کہہ کر تسلیم کرتے ہو اور جو مجتہد مطلق ہو، اس کے اجتہاد کو غلط کہہ کر طعن کرتے ہو،
ناطقہ سربگریباں ہے، اسے کیا کہیئے
مرتبہ :سیدعمادالدین مشہدی کاظمی فیصل آباد نزد سمندری 449 گ۔ب
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.