محترم قارئین السلام ُ علیکم
اللہ کریم نے دُنیا کے نظام کو قائم رکھنے کیلئے اور اپنے بندوں کی آزمائش
کیلئے انسانوں کو طبقات میں پیدا فرمایا کسی کو تنگدست کردیا تاکہ اُنہیں
آزمائے کہ کیا مال سے محرومی پر روتے ہیں یا اللہ کریم کا شُکر ادا کرتے
ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو مال عطا فرمایا اور اُنہیں حکم دیا کہ یہ مال دینے
والا حقیقی مالک میں ربّ العالمین ہُوں اور یہ مال میں نے ہی تُم کو عطا
کیا ہے لہٰذا اپنے مال میں سے غریبوں اور تنگدستوں کو بھی دو تاکہ وہ
تنگدست بھی اللہ کریم کے مال سے تقویت پکڑیں اور مفلسی کی انتہا نہ پہنچ
جائیں ۔
لہٰذا اِس مصرف کو زکواۃ کے نام سے پُکارہ اور اِسے ہر صاحب نصاب مسلمان پر
فرض کردیا ۔
اِنسان جو کچھ بھی اپنی محنت یا بنا محنت کے مال حاصل کرتا ہے یہ حقیقی
معنوں میں اللہ عزوجل ہی کا مال ہے لیکن بعض انسانوں کو شیطان اِس وسوسے
میں مُبتلا کردیتا ہے کہ یہ مال بڑی محنت سے حاصل کیا گیا ہے لہٰذا میری
صوابدید پر منحصر ہے کہ میں یہ مال کسی کو دوں یا نہ دُوں۔ جبکہ بعض لوگ یہ
مال اللہ کریم کی بارگاہ میں نکالنا تو چاہتے ہیں لیکن وہ اسقدر نہیں دینا
چاہتے جسقدر دینے کا حُکم اللہ کریم کے مدنی محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
فرمایا بلکہ چند روپے نکال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے زکواۃ کا حق ادا کردیا
ہے اور اب ہم پر غریب مسلمانوں کا کوئی حق باقی نہیں ہے۔
جبکہ شائد وہ نہیں جانتے کہ جِس انسان نے بھی اللہ کریم یا انبیئا کرام
علیہ الصلواۃ والسلام کے احکام کے آگے اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی ہے وہ اسِ
دُنیا میں بھی عبرت کا نشان بنایا گیا ہے اور آخرت میں بھی صرف پچھتاوہ ہی
اُسکا مُقدر ہوگا چُنانچہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ قارون جسے دُنیا کا سب سے
دولت مند انسان مانا جاتا ہے کہ جس کے خزانوں کی کُنجیاں بھی ستر اونٹوں پر
لادی جاتی تھیں جب زکواۃ کا مُنکر ہُوا تو وہ عبرت کا نشانہ بنا دِیا گیا
خود بھی تمام خزانوں سمیت زمین میں دہنس گیا اور قیامت تک دہنستا ہی رہے گا
اور یہ بیمثال خزانہ بھی اُسے نہ بچا پایا۔
تفسیر نورالعرفان میں یہ واقعہ یوں مذکور ہے
قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کے چچا یصہر کا بیٹا تھا نہایت خوب صورت شکیل
آدمی تھا اسی لئے اس کو منور کہتے تھے اور بنی اسرائیل میں توریت کا سب سے
بہتر قاری تھا، ناداری کے زمانہ میں نہایت متواضع و با اخلاق تھا، دولت
ہاتھ آتے ہی اس کا حال متغیر ہوا اور سامری کی طرح منافق ہوگیا۔ کہا گیا ہے
کہ فرعون نے اس کو بنی اسرائیل پر حاکم بنا دیا تھا۔
قارون اور اس کے گھر کے دھنسانے کا واقعہ علماءِ سیر و اخبار نے یہ ذکر کیا
ہے کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے
جانے کے بعد مذبح کی ریاست حضرت ہارون علیہ السلام کو تفویض کی بنی اسرائیل
اپنی قربانیاں حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس لاتے اور وہ مذبح میں رکھتے
آگ آسمان سے اُتر کر ان کو کھا لیتی قارون کو حضرت ہارون کے اس منصب پر رشک
ہوا اس نے حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہا کہ رسالت تو آپ کی ہوئی
اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون کی، میں کچھ بھی نہ رہا باوجودیکہ میں
توریت کا بہترین قاری ہوں میں اس پر صبر نہیں کر سکتا۔ حضرت موسٰی علیہ
الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ منصب حضرت ہارون کو میں نے نہیں دیا اللہ
نے دیا ہے قارون نے کہا خدا کی قسم میں آپ کی تصدیق نہ کروں گا جب تک آپ اس
کا ثبوت مجھے دکھا نہ دیں حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رؤساءِ بنی
اسرائیل کو جمع کر کے فرمایا کہ اپنی لاٹھیاں لے آؤ انہیں سب کو اپنے قبہ
میں جمع کیا، رات بھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں کا پہرہ دیتے رہے صبح کو حضرت
ہارون علیہ السلام کا عصا سرسبز و شاداب ہو گیا، اس میں پتے نکل آئے، حضرت
موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اے قارون تو نے یہ دیکھا؟ قارون نے کہا یہ آپ
کے جادو سے کچھ عجیب نہیں ۔
حضرت موسٰی علیہ السلام اس کی مدارت کرتے تھے اور وہ آپ کو ہر وقت ایذا
دیتا تھا اور اس کی سرکشی اور تکبُّر اور حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام
کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی، اس نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے
کا تھا اور اس کی دیواروں پر سونے کے تختے نصب کئے بنی اسرائیل صبح و شام
اس کے پاس آتے، کھانے کھاتے، باتیں بناتے، اسے ہنساتے، جب زکوٰۃ کا حکم
نازِل ہوا تو قارون موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس آیا تو اس نے آپ سے
طے کیا کہ درہم و دینار و مویشی وغیرہ میں سے ہزارواں حصہ زکوٰۃ دے گا لیکن
گھر جا کر حساب کیا تو اس کے مال میں سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا اس کے
نفس نے اتنی بھی ہمّت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کو جمع کر کے کہا کہ تم
نے موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہر بات میں اطاعت کی اب وہ تمہارے مال
لینا چاہتے ہیں کیا کہتے ہو؟
انہوں نے کہا آپ ہمارے بڑے ہیں جو آپ چاہیں حکم دیجئے کہنے لگا کہ فلانی
بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسٰی
علیہ الصلٰوۃ والسلام پر تہمت لگائے ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسٰی
علیہ السلام کو چھوڑ دیں گے چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار اشرفی اور
ہزار روپیہ اور بہت سے مواعید کر کے یہ تہمت لگانے پر طے کیا اور دوسرے روز
بنی اسرائیل کو جمع کر کے حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا
کہ بنی اسرائیل آپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیں
حضرت تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا کہ اے بنی
اسرائیل جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے جو بہتان لگائے گا اس کے
اسی کوڑے لگائے جائیں گے اور جو زنا کرے گا اس کے اگر بی بی نہیں ہے تو سو
کوڑے مارے جائیں گے اور اگر بی بی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں تک
کہ مر جائے، قارون کہنے لگا کہ یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں فرمایا
خواہ میں ہی کیوں نہ ہوں کہنے لگا کہ بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں
بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اسے
بلاؤ وہ آئی تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا اس کی قَسم جس نے بنی
اسرائیل کے لئے دریا پھاڑا اور اس میں رستے بنائے اور توریت نازِل کی سچ
کہہ دے وہ عورت ڈر گئی اور اللہ کے رسول پر بہتان لگا کر انہیں ایذاء دینے
کی جرأت اسے نہ ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے
اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے
اللہ عزوجل کی قَسم یہ جھوٹ ہے اور اس نے آپ پر تہمت لگانے کے عوض میں میرے
لئے بہت مالِ کثیر مقرر کیا ہے۔
حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے ربّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں گرے
اور یہ عرض کرنے لگے یا ربّ اگر میں تیرا رسول ہوں تو میری وجہ سے قارون پر
غضب فرما اللہ تعالٰی نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں نے زمین کو آپ کی
فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے آپ اس کو جو چاہیں حکم دیں۔ حضرت موسٰی
علیہ الصلٰوۃ و السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا اے بنی اسرائیل اللہ
تعالٰی نے مجھے قارون کی طرف بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا جو
قارون کا ساتھی ہو اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے جو میرا ساتھی ہو جدا ہو
جائے، سب لوگ قارون سے جدا ہو گئے اور سوا دو شخصوں کے کوئی اس کے ساتھ نہ
رہا پھر حضرت موسٰی علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ لے تو وہ
گھٹنوں تک دھنس گئے پھر آپ نے یہی فرمایا تو کمر تک دھنس گئے آپ یہی فرماتے
رہے حتیٰ کہ وہ لوگ گردنوں تک دھنس گئے اب وہ بہت منّت و لجاجت کرتے تھے
اور قارون آپ کو اللہ کی قسمیں اور رشتہ و قرابت کے واسطے دیتا تھا مگر آپ
نے التفات نہ فرمایا یہاں تک کہ وہ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہو گئی ۔
قتادہ نے کہا کہ وہ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں گے۔
بنی اسرائیل نے کہا کہ کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے قارون کے مکان اور اس
کے خزائن و اموال کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی یہ سن کر حضرت موسٰی علیہ
الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالٰی سے دعا کی تو اس کا مکان اور اس کے خزانے و
اموال سب زمین میں دھنس گئے۔
قرآن مجید میں جا بجا صدقات واجبہ زکواۃ کا ذکر آیا ہے
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیتٰمٰی وَ
الْمَسٰکِیۡنَ وَ ابْنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَالسَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ
ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَالْمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمْ
اِذَا عٰہَدُوۡا
سورہ البقرہ آیت نمبر (177 )۔
اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں
اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور
زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں
شانِ نزول
ایمان کے بعد اعمال کا اور اس سلسلہ میں مال دینے کا بیان فرمایا اس کے چھ
مصرف ذکر کئے گردنیں چھڑانے سے غلاموں کا آزاد کرنا مراد ہے یہ سب مستحب
طور پر مال دینے کا بیان تھا مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینا
بحالت تندرستی زیادہ اجر رکھتا ہے بہ نسبت اس کے کہ مرتے وقت زندگی سے
مایوس ہو کر دے (کذافی حدیث عن ابی ہریرہ )
مسئلہ : حدیث شریف میں ہے کہ رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک
صدقہ کا ایک صلہ رحم کا (نسائی شریف)
یہاں جو سب سے پہلا مصرف زکواۃ کا بیان کیا گیا ہے وہ ہے رشتہ دار لیکن
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے عزیزوں کو زکواۃ کی تقسیم کے وقت بھول جاتے
ہیں جبکہ اگر رشتہ داروں میں اگر ضرورت مند موجود ہوں اور اُسکے باوجود اُن
غریب رشتہ داروں کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ قرآن پاک کے احکامات کے
خلاف عمل ہوگا اگرچہ زکواۃ ادا ہوجائے گی لیکن غریب رشتہ دار اپنی محرومی
کے سبب کل قیامت میں اللہ کریم کی بارگاہ میں فریاد کرسکتے ہیں کہ یہ ہمارا
رشتہ دار مالدار ہونے کے باوجود ہمیں بُھولے بیٹھا رہا۔ جبکہ اسکی زکواۃ
اور صدقات کے ہم ذیادہ مستحق تھے۔
لہٰذا جب زکواۃ دیں تو سورہ البقرۃ کی مذکوربالا آیت کی روشنی میں اُسکے
مستحقین کو دیں۔
زکواۃ اندازاناً نہ دیں بلکہ حساب لگا کر پوری ڈھائی فی صد کے حِساب سے ادا
کریں۔
زکواۃ کو مال کا میل کہا گیا ہے اِس لئے اِس میل کو جونہی سال مکمل ہوجائے
مال سے علیحدہ کردینا چاہیئے اس عمل سے انشاءَ اللہ عزوجل آپکا باقی مال
محفوظ ہوجائے گا۔
زکواۃ کے مکمل مسائل آپ اِس کتاب کے لنک سے بھی حاصل کرسکتے ہیں
https://library.faizaneattar.net/Books/index.php?id=519
|