’وطن کور‘ ۔۔۔۔۔زنگ آلود!

وطن کور پشاور میں واقع، قومی وطن پارٹی کا مرکزی دفتر ہے۔جہاں پارٹی کے امور چلانے کیلئے اجلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔پہلا لفظ وطن پارٹی کے نام سے لیا گیا ہے۔جبکہ کور پشتو زبان کا لفظ ہے جو کہ گھر کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ قومی وطن پارٹی ایک صوبائی پارٹی ہے۔اور عوامی نیشنل پارٹی کے بعد پشتون قومیت کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔البتہ اے این پی کو ۲۰۱۳ ؁ء کے عام انتخابات میں کیو ڈبلیو پی کے مقابلہ میں کم پذیرائی ملی۔قومی وطن پارٹی اپنے آپ کو پشتونوں کی ثقافت ،اقدار اور حقوق کا پاسدار اور علمبردار سمجھتی ہے۔اس لیے جب بھی پشتون بیلٹ اور پشتونوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔تو اس کیلئے آفتاب احمد خان شیرپاؤ سَر چَڑ کر بیانات کَھستے ہیں۔

۲۰۱۳؁ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی نئی نویلی پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت کا نکاح رچایا گیا۔مگر یہ نکاح زیادہ دیر نہ چل سکا۔تلخیاں بڑھیں۔الزامات کے بوچھاڑ کیے گئے۔تو رشتہ ٹوٹ گیا۔کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کہیں حرفِ آخر نہیں ہوتا۔اور یوں کل کے دشمن ایک قلیل عرصہ بعد طلاقِ احسن سے واپسی کرکے از سرِ نوجوڑی بنانے پر راضی ہو گئے۔شاید وجہِ یگانگت یہ بھی ہو۔کہ سیاست میں کُرسی تک رسائی ہر پارٹی کا منزلِ مقصود ہوتا ہے۔اور کُرسی کے حصول میں ہر قسم کا سمجھوتہ قبول کیا جاتا ہے۔طلاقِ احسن سے رجوع کے بعد قومی وطن پارٹی کو صوبائی اتحادی حکومت سے جہیز میں کئی وزارتیں ملیں۔جِن میں ایک محنت و افرادی کی وزارت انیسہ زیب طاہر خیلی کے حصہ میں آئی۔قومی وطن پارٹی کی بدقسمتی یہ ہے۔کہ موجودہ حکومت میں رہتے ہوئے یہ وزارت دو مرتبہ انہی کے حصہ میں آئی۔لیکن کوئی حوصلہ افزا کارکردگی نہ دکھا سکی۔ایک مجبوری اُن کی یہ بھی ہو سکتی ہے۔کہ وزارتیں عملاََ پرویز خٹک کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔وزیراعلیٰ کے آمرانہ ا حکامات کی خِلافِ تعمیل کی صورت میں احتساب کمیشن کے ہتھے چڑھ جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ایک ہوشیار آدمی کا موجودہ حکومت کے بارے میں قول ہے، کہتا ہے کہ جس منسٹر کے منہ سے یا کسی اخبار میں اشتہار کے نیچے Say No to corruption کا کلمہ سُنتا یا پڑھتا ہوں ۔ تب مُجھے جادوئی کرپشن کا یقین ہونے لگتا ہے۔جادوئی کرپشن ایک ایسی اصطلاح ہے۔جہاں میرٹ کی بالادستی، انصاف کی فراہمی، تبدیلی اور say no to corruption کے نام پر عوام کا ستیاناس کیا جاتا ہے۔

پشاور میں واقع قومی وطن پارٹی کے دفتر کے سامنے تعلیم یافتہ گریجویٹ گذشتہ کئی دِنوں سے خیمہ زن ہیں۔اِن لوگوں کے دو جائز مطالبات ہیں۔پہلا یہ کہ ان کے اہلِ خانہ پچھلے ۹ ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا رونا رو رہے ہیں۔دوسرا یہ کہ ان ملازمین کا قانونی اور جائز حق بنتا ہے۔کہ ان کو مستقل کیا جائے۔مگر مسائل تب حل ہوتے ہیں ۔ جب متعلقہ منسٹر کے ساتھ افسرانِ بالا بھی مسائل کے حل میں مخلص اور سنجیدہ ہو۔مگر انیسہ زیب کی باگ ڈور کہیں اور سے کنٹرول ہو رہی ہے۔ساتھ اُن کو نئی بھرتیوں کا چسکا بھی لگا ہے۔اگر مسئلہ کے حل میں وزیر محنت سنجیدہ اور مخلص ہوتی۔تو ان لوگوں کو ایک سال کیلئے کنٹریکٹ میں توسیع دیتے۔اور اس دوران یہ کاغذات اور ڈگریوں کی جانچ پڑتال کرتے۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ۔کہ اس سسٹم میں پڑھنے والے تقریباََ چالیس ہزاربچوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہوتا۔کیونکہ اب تو سسٹم کے اندر پڑھنے والے مزدوروں کے بچوں کا تعلیمی سال عنقریب ضائع ہونے والا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان سکولوں اور کالجوں سے اخراج کا شرح بھی بڑھ گیا ہے۔۳۰ جون کے بعد ایک سالہ کنٹریکٹ میں توسیع دینے سے ملازمین کو فُٹ پاتھ پر بیٹھنے یا وطن کور کے سامنے دھرنا دینے کا موقع نہ ملتا۔لیکن مارچ ۲۰۱۶؁ء کے بعد ملازمین مالی مشکلات کے ساتھ اپنی مستقبل کیلئے پریشان اور بے چین ہیں۔دھرنا میں بیٹھے ہوئے ملازمین کا کہنا ہے۔کہ وہ اپنے جائز حق کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔جہاں تک ملازمین کی ناجائز اور خلافِ قواعد بھرتیوں کا سوال ہے۔تو اگر پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے ۳ سال سے زائد کے دورِ حکومت میں یہ مسئلہ حل نہ کر سکیں۔اور ملازمین کی برطرفی کے جواز پیش نہ کر سکے۔تو اب ملازمین ، ان کے اہلِ خانہ اور تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر مبنی بر عقل فیصلے کرنے چاہیے۔متعلقہ وزارت اور افسرانِ بالا کو تعلیمی اداروں کی بربادی کی بجائے بحالی پر توجہ دینی چاہیئے۔تاکہ ان ملازمین کی دلچسپیاں اور قیمتی وقت وطن کور پر دھرنے اور احتجاجوں میں ضائع ہونے کی بجائے تعلیمی اداروں میں نونہالانِ وطن کی کردار سازی اور نئی نسل کی تعلیمی آبیاری پر صرف ہو سکے۔مزدوروں کے بچوں کو ان کے اساتذہ نے قومی ترانے کے ساتھ یہ دعا سکھائی تھی۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری : زندگی شمع کی صورت ہوں خدایا میری

لیکن وطن کور کے متولی ان کی تمناؤں پر آمین کہنے کی بجائیان کو اجتماعی دعا مانگنے سے بھی محروم رکھا۔شاید وطن کور کے باسی اور پشتونوں کی ثقافت کے داعی اُن کو اندھیرے سے نکالنے کی بجائے، نئی نسل کو قلم و کتاب کی طرف راغب کرنے کی بجائے، ایک باوقار اور مہذب قوم بنانے کی بجائے، اُن کو خلافِ دانش سوچنا پڑا ۔ اور حُب ِجاہ و کُرسی نے ان کی عقلوں کو زنگ لگا دی۔گویا یہ اب اندھیرے و اُجالے،قلم و بندوق ،اور باوقار و بے وقار میں تفریق کرنے سے قاصر رہیں۔ان کے عقلوں سے زنگ کی صفائی عوام ووٹ کے ریگ مال سے کرینگے۔
Hafiz Abdul Raheem
About the Author: Hafiz Abdul Raheem Read More Articles by Hafiz Abdul Raheem: 31 Articles with 19805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.