انصاف کی سنہری داستان !
(Ghulam Nabi Madni, Madina)
کہانی 13دسمبر
2012 سے شروع ہوتی ہے۔عیش وعشرت اورنازونعم میں پلاسعودی شاہی خاندان
کانوجوان شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال
میں واقع سیاحتی مقام "ثمامہ" کی طرف جاتا ہے۔شہزادے کی گاڑی کے ساتھ اس کے
دوستوں کی دوگاڑیاں بھی تھیں۔ایک گاڑی میں شہزادے کا دوست عادل
المحمیدتھا۔ثمامہ کے سیاحتی مقام پر اسلحہ سےلیس چندنوجوانوں میں جھگڑا چل
رہاتھا،جن میں اسلحہ کا بلیک ڈیلر حداد نامی شخص بھی تھا۔شہزادے کے دوست
صورتحال کا اندازہ کرنے گاڑی سے نیچے اترتےہیں۔اچانک زبردست فائرنگ شروع
ہوجاتی ہے۔نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹل سے اندھا دھند فائرنگ کی،جس کے
نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحیمید کوجا لگی ،جو بعد میں
عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی
لگی۔نتیجتا شہزادہ کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اوردوسرا دوست بری
طرح زخمی ہوگیا۔پولیس موقع پر پہنچتی ہے،شہزادے سمیت وہاں موجود لوگوں کو
گرفتار کیا جاتاہے۔اس دوران شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس
کی گولی سے ماراگیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوتاہے۔پولیس کی تحقیقات سے
پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔معاملہ عدالت میں جاتا
ہے۔جہاں کیس کا بھرپور جائزہ لیا جاتاہے۔جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو عادل
المحیمید نامی شخص کے قتل کے جرم میں قصاصا قتل کی سزا سنادی جاتی ہے۔
شہزادے کے اقرباء کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی آفر
کی جاتی ہے۔شہزادے کی جان خلاصی کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی
ہیں،یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے
لواحقین سے سفارش کرتے ہیں،لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہتے
ہیں۔چنانچہ شاہ سلمان قصاص نافذ کرنے کا حکم دے دیتے ہیں ۔یوں18اکتوبر 2016
ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔اٹھارہ اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن
ہوتاہے۔آج کے دن شہزادے کو قصاص میں قتل ہونا ہے۔شہزادے کے آخری دن کے عینی
شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا
جاتاہے۔شہزادہ تہجد کی نماز اداکرتے ہیں،پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت
کرتے رہتے ہیں۔صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جاتے ہیں۔شہزادہ اپنی
ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتے،بلکہ کسی کو اپنی وصیت لکھواتے ہیں۔دن گیا رہ
بجے شہزادے کو غسل کراکر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتاہے۔جہاں شاہی
خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اوردیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے
اربوں ریال دینے کے لیے تیار کھڑےتھے۔دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور
لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔یہاں تک کہ ظہر کا وقت
ہوجاتاہے ،شہزادے سمیت سارے لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں،نماز کے بعد ریاض
کے گورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے
پاس جاتے ہیں،مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرادیتے ہیں اور
شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان
میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو
نافذکردیتے ہیں،اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی
دیتی اور پھرمجمعے پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔
قصاص میں قتل ہونے والے سعودی شہزادے ترکی بن سعود کی اس کہانی کے بعد چودہ
سوسال پیچھے لوٹیے،جہاں انصاف کی ایسی ہی داستان رقم کی گئی تھی۔ قریش ایسے
معزز خاندان کی معززخاتون پر چوری کا الزام ہے۔مقدمہ رحمت عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کے دربار میں پیش کیا جاتاہے۔چوری ثابت ہونے پرخدا کی مقررکردہ "ہاتھ
کاٹنے کی سزا" سنائی جاتی ہے۔اس دوران خاتون کے خاندان نے سفارش کے لیے تگ
ودو شروع کی کہ رسول خدا کے سامنے کون سفارش کرسکتاہے،لوگوں نے صحابی رسول
اسامہ بن زید کا نام پیش کیا،چنانچہ اسامہ کو سفارش پر مجبور کیا گیا،اسامہ
رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کرتے ہیں۔آپ یہ سن
کر غضبناک ہوئے ،فرمایا"کیا تم اللہ کی بیان کردہ حدود میں مجھ سے سفارش
کرتے ہو"؟پھر منبر پر کھڑے ہوکر وہ سنہری الفاظ ارشادہ فرمائےجو قیامت تک
ظلم کو مٹانے کے لیے بہترین اسوہ لیے ہوئے ہیں۔فرمایا"تم سے پہلی قومیں اس
لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معززچوری کرتاتو اسے چھوڑدیا جاتا اور
جب کوئی کمزور چوری میں پکڑا جاتا اس کو سزادی جاتی۔خدا کی قسم اگر محمد کی
بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا"(بخاری
ومسلم)۔چنانچہ اس معزز خاتون پر حدنافذ کی گی۔
عدل وانصاف کی ان بے نظیر مثالوں کے بعد ہمارے عدالتی سسٹم پر غور
کیجئے،جہاں 19 سال تک بے گناہ مظہر حسین کو قیدمیں رکھ کر ماردیا جاتاہے،اس
کی بے گناہی کا فیصلہ اس کے مرنے کے بعد سنایاجاتاہے۔ریمنڈڈیوس ایسے قاتل
کو راتوں رات بچا کر رہاکروادیاجاتاہے۔شاہ زیب قتل کیس میں جج کو فون کرکے
کہا جاتاہے کہ شاہ رخ جتوئی کا خیال کرنا اپنا بچہ ہے۔پھر لواحقین کو مجبور
کرکے قاتل شاہ رخ کو معاف کروالیا جاتاہے۔ماڈل ڈالر گرل ایان علی کو رنگے
ہاتھوںمنی لانڈرنگ کرتے گرفتارکیا جاتاہے،گرفتارکرنے والے افسر کو قتل
کردیا جاتاہے،پھر مجرم ایان علی کوبچانے کے لیے سابق صدر سمیت بڑی بڑی
حکومتی شخصیات اور سیاستدان سامنےآجاتے ہیں،مجرم ایان علی رہا ہوجاتی ہے
لیکن مقتول افسر کو انصاف نہیں مل پاتا۔لال مسجد میں مظلوموں کا خون بہانے
والے ،امریکا کو اڈے دے کر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں
لوگوں کو مروانے والےاورقوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچنےوالے آمر پرویز
مشرف ایسے ظالم کے خلاف آج تک ہمار ا نظام عدل سوائے بیان اور پیشیاں دینے
کے کچھ نہ کرسکا۔لاپتہ کیے جانے والے افراد ،کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے
جانے والے مظلوموں کے لواحقین آج تک انصاف کی بھیک مانگتے پھر رہے
ہیں۔ہمارے ہاں انصاف کی اسی حالت کو دیکھ کر"مظلوم لوگ "پولیس اور عدالت
کانام سن کرخوف کھاتے ہیں۔جب انصاف کایہ عالم ہوتومعاشرا کیسے پرامن
ہوسکتاہے؟دہشت گردی،کرپشن،چوری ڈکیتی اورٹارگٹ کلنگ ایسے جرائم کیسے رک
سکتے ہیں؟۔شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعودوقت کے بادشاہ سلمان بن
عبدالعزیز کا بھتیجا تھا،جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں
بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ
کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے،نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔یہی وجہ
ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ہے ایک ہے،جہاں قتل وغارت
گری،چوری ڈکیتی،کرپشن اوررشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ایک عام آدمی
وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کرسکتاہے۔خود سعودی بادشاہ نے عوام کو اس
کا یقین دلایا۔جب انصاف کا یہ عالم ہو تو یقینا قومیں ترقی کرتی ہیں
اورمعاشرے پرامن رہتے ہیں۔اگر ہم ترقی کرنا چاہتے اور ملک کو پرامن بنانا
چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نظام ِانصاف کو آزاد کروانا ہوگا اورخدا کی
مقررکردہ حدود کو بغیر کسی دباؤ کے نافذ کرناہوگا! |
|