سندھ میں کوٹہ نظام اور بڑھتی ہوئی کرپشن

سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں کی بنیاد پر کوٹہ نظام بھٹو صاحب نے متعارف کرایا۔گذشتہ 43سال سے یہ نظام چلتا آرہاہے جب کہ اسے صرف 10سال کے لیے متعارف کرایاگیاتھا۔سوشلزم کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ مسابقت کانہ ہوناتھا۔پاکستان میں صنعتوں کے قومیائے جانے سے سرکاری اداروں میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں ، اقرباپروری، رشوت اور بدانتظامی نظر آتی ہے اور سندھ میں یہ صورتِ حال زیادہ ابتر ہے۔

ٓآج کل نقل کا رجحان سندھ میں بہت بڑھ چکا ہے۔سرکاری جامعات میں داخلہ کے لیے رشوت لی اور دی جاتی ہے اور یہی صورتِ حال سرکاری ملازمتوں کے حصول میں نظر آتی ہے۔موجودہ نظام میں اگر سندھ میں کوئی کرپشن نظام کا حصّہ نہ بننا چاہے تو اس کے لیے ترقی تو کجا اپنی ملازمت کو بچانا بھی مشکل ہے۔

حال ہی میں ڈاکڑ عاصم حسین کی مبینہ 462ارب روپے کی کرپشن کا کیس سامنے آیا۔ وہ سندھ کے اعلی تعلیم کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔کرپشن کی یہ رقم سندھ حکومت کے اس سال کے سالانہ تعلیمی بجٹ کی مختص رقم161ارب روپے کے تین گنا جتنی ہے۔یہ کرپشن مجموعی کرپشن کا عشرِعشیر بھی شاید نہ ہو۔ میڈیارپورٹس کے مطابق سندھ کے محکمہ تعلیم میں دس ہزار سے زائد جعلی بھرتیاں پچھلے وزیرِتعلیم کے دور میں ہویئں۔

اس کے مقابلہ میں اقرایونیورسٹی جوکہ ایک نجی شعبہ کی یونیورسٹی ہے،اس نے HECکی بزنس رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ IBA KARACHI کے سابقہ ڈائرکٹر نے ایک موقعہ پر اپنے بچے کو داخلہ میں ناکامی کا خط لکھا۔دیکھا جاسکتا ہے کہ اداروں میں امانت ودیانت سے کام ہوتو اداروں کی کارکردگی کیسی ہوسکتی ہے اور وہ ملکی ترقی میں کتنا کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کراچی میں دولاکھ افراد ہرسال رہائش کے لیے آتے ہیں۔کراچی کا ترقیاتی بجٹ اس سال دس ارب رکھا گیا ہے۔چند بہتر رہائش کے علاقوں میں اس قیمت میں سوپلاٹس بھی شاید مشکل سے خریدے جاسکیں۔کراچی شہر کی آبادی اب ڈھائی کڑوڑ کو پہنچنے والی ہے۔کراچی شہر کا ملکی آمدنی میں 25 فی صد اور سندھ کی مجموعی آمدنی میں 80 فی صدحصّہ ہے۔دو تہائی سے زیادہ ملکی محصولات کراچی شہر سے وابستہ ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی ایک بھی سرکاری یونیورسٹی پچھلے 45برسوں میں قائم نہیں ہوئی باوجودیکہ شہری سندھ کی آبادی تین کڑوڑتک پہنچ گئی ہے۔
ملکی آبادی کا15فی صد اور زیادہ اہل اور قابل ہونے کے باوجود شہری سندھ کا وفاقی کوٹہ میں حصّہ محض 7.6فی صدہے۔ کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق شہری سندھ کا ڈومیسائل

 لینا نہایت آسان ہے۔ کراچی اور حیدرآ باد کے حکومتی اداروں میں جانے کا مشاہدہ کیجیے توشاذونادر ہی اردو بولنے والے سندھی نظر آیئں گے۔اس صورت ِحال میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کیوں کراچی شہر کے تقریباً نصف نوجوان بیرونِ ملک جاناچاہتے ہیں جیسا کہ کراچی یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے ۔

ہمیں یکساں مواقعوں کی ضرورت ہے ناں کہ یکساں پسماندگی،یکساں محرومیوں اور یکساں زوال پذیری کی۔ اگر محنت اورقابلیت کی قدر نہ ہوگی تو ہم دیرپاترقی نہیں کرپایئں گے۔ایسا بہت مشکل ہے کہ سندھ کے ساٹھ لاکھ بچے اسکول نہ جاتے ہوں اور کوٹہ کے نظام سے ان کا مستقبل بہتر ہوجائے۔حکومت اور ریاست کو بنیادی توجہ بنیادی تعلیم اور صحت پر دینی چاہیے۔اگر بنیادی صحت کی سہولیات دستیاب ہوں اور کالج تک مفت اور معیاری تعلیم مہیا کی جائے تو دیہی سندھ کے نوجوان اپنا مستقبل خود تابناک بناسکتے ہیں۔

اس کے برعکس معاشی طور پر کمزور اور نااہل حکومتیں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو نوکریاں نہیں دے سکتی ہیں۔ اگر محدود اسامیوں پر بھی غیر منصفانہ بھرتیاں ہوں گی تو حکومتی ادارے مزید نااہل ہوں گیاور لوگ پسماندہ رہیں گے۔اعدادوشمار اس بات کی تایئد کرتے ہیں۔ National Nuitrion Survey 2011کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 20لاکھ بچے بھوک سے متاثر ہیں۔17فی صد گھرانے بھوک اور خشک سالی کا شکار ہیں۔اس کے علاوہ تھر میں قحط سے ہر سال ہلاکتیں اب معمول ہیں۔لوگوں کو مچھلی پکڑناسکھائیں اور نظام ان کی مدد کرے ناں کہ انہیں اپنا نسل در نسل محکوم بنالے۔چالیس سال سے زائد عرصہ میں دو نسلیں گزچکی ہیں اور صوبہ ابھی بھی مجموعی طور پر پسماندہ اور زیادہ کرپشن کا شکار ہے۔دعا ہے کہ سندھ اور پاکستان ترقی کرے ۔
 
Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 14 Articles with 11105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.