گلگت بلتستان میں سماجی خدمت
(Ishtiaq Ahmed Yaad, Gilgit)
ہم بھی عجیب
انسان ہیں ۔ ہمارے ہاں انسان کا اچھا اور بُرا ہونے کا معیار بہت حد تک غیر
معیاری ہے ۔ ظاہری چمک دمک، بڑا عہدہ اور مال و متاع رکھنے والے انسان
ہمارے معیار کے مطابق اچھے جبکہ با کردار ، دیانت دار ، قناعت پسند ، سادہ
لوح ، با اصول اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار انسان ہمارے نزدیک شاید اچھے
انسان نہیں کہلاتے۔دنیا کے تمام مذاہب، مفکرین اور ادیبوں نے زندگی کے مقصد
پر کلام کیا ہے۔ ان کے مطابق زندگی کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ’’انسانوں
کا ایکدوسرے کے کام آنا، دکھ درد باٹنا اور آسانیاں پیدا کرنا ہے‘‘۔ حدیث
ِپاکؐ کا مفہوم ہے کہ ’’تم میں بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کو نفع
پہنچائے‘‘ ایک شاعر نے اِسے یوں بیان فرمایا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان بنیادی طور پر حیوان ہے۔ لیکن بقولِ ارسطو
کے ’’ انسان سماجی حیوان ہے‘‘ ۔ سماجی حیوان ہونے کے بہت سے محرکات ہیں۔
ایک اہم محرک اچھائی اور برائی میں تمیز، تہذیب و تمدن، سماجی تفاعل اور
گروہی زندگی ہے۔ان سے بڑھ کر ’’ احساس‘‘ کا پایا جانا ہے ۔ یہی احساس ہی
انسان اور حیوان کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔
دنیا کی تاریخ نے ایک طرف سونے کے چمچ لیکر پیدا ہونے والوں، اپنے آپ کو
کچھ سمجھنے والوں اور سیم و زر کے دھنی افراد ۔۔۔ تو دوسری جانب درد ِدل ،
درد ِجگر سے سرشار ، انسان دوست اور سماجی خدمت کے پیکر عظیم انسانوں کو
دیکھا ہے ۔ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے والوں کو آج کوئی کچھ نہیں سمجھتا جبکہ
اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتے ہوئے سماجی خدمت اور انسانیت کو ہی سب کچھ سمجھنے
والوں جیسے عبد الستار ایدھی، مدر ٹریسا اور رُتھ فاؤ وغیرہ کو آج دنیا سب
کچھ سمجھتی ہے۔
سماجی خدمت روحانی تسکین ، ضمیر کے اطمینان اور سکونِ قلب کی ضامن ہے اور
اس میں لا محالہ سماج کا وسیع تر مفاد کا راز پنہاں ہے ۔ لہٰذا انسانی،
قومی اور سماجی فریضہ سمجھ کر اسے اپنا نصب العین بنانا وقت کی اہم ضرورت
ہے۔ ویسے تو گلگت بلتستان میں سماجی خدمت یا سماجی بہبود (Social Service
or Social Work) کافی عرصے سے عملی شکل میں موجود ہے۔ جس کو نہ سراہنا
زیادتی ہوگی۔ لیکن یہ سماجی خدمت ایک خاص سطح تک پائی جاتی ہے یا یوں کہیں
کہ اس کا ایک محدود دائرہ عمل ہے مثلاً سرکاری اداروں میں سے ایک ادارہ
’’محکمہ سماجی بہبود‘‘ میں رضاکارانہ خدمت (Volunteerism) یعنی سماجی خدمت
کا رجحان اور عملی شکل موجود ہے۔ اسی طرح آغا خان فاؤنڈیشن کے کچھ ذیلی
اداروں اور چند دیگر اداروں میں اس تصور کا نفاذ ہے ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے
کہ اِن اداروں کی اِن خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر کیا ہی
اچھا ہوتا کہ سماجی خدمت کے اس عظیم عمل کو عوامی سطح یعنی سکولوں ،
کالجوں، جامعات، ہسپتالوں ،بازاروں اور محلوں تک پہنچایا جاتا۔یہ بھی ایک
غور طلب پہلو ہے کہ گلگت بلتستان کے چند نجی اداروں اور نوجوانوں نے سماجی
خدمت یا سماجی بہبود کو کافی حد تک ایک سطح تک محدود کیا ہوا ہے۔ اس کی ایک
مثال اسماعیلی بوائے سکاؤٹس ایسو سی ایشن، امامیہ بوائے سکاؤٹس ایسو سی
ایشن اور الفلاح بوائے سکاؤٹس ایسو سی ایشن ہے۔ جو ایک سطح تک تو بہت اچھا
کام کر رہی ہیں مگر سماجی خدمت کی اصل روح کے مطابق اگر تینوں ایسو سی
ایشنز کے چند عہدیداران مل کر ایک پلیٹ فارم کی صورت میں ’’گلگت بلتستان
بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن‘‘ تشکیل دیں تو اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہو
جائیگا اور خدمت کے ساتھ ساتھ محبت کو بھی مزید فروغ مل سکے گا۔
سماجی خدمت کو پروان چڑھانا جہاں این جی اوز اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری
ہے وہیں حکومت اور سرکاری اداروں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں صوبائی
حکومت کی شروعات قابلِ قدر ہیں ۔ اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا کہ 16 اکتوبر
2016کو گلگت بلتستان کے سینئر صحافیوں سے ہونے والی ایک ملاقات کے دوران
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان صاحب نے بتایا کہ گلگت بلتستان
کے بچوں اور نوجوانوں میں سماجی خدمت کے جذبے کو اُبھارنے کے لئے صوبائی
حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 21
اکتوبر 2016 سے گلگت بلتستان کے تمام سکولوں میں ہفتے میں ایک دفعہ طلباء
وطالبات کو سماجی خدمت بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ اُس دن
سکول کا سربراہ اپنے بچوں کو اِس حوالے سے خصوصی تربیت دے گا/دے گی۔ابتدائی
طور پر یہ بچے اُس دن سکول اور سکول کے ارد گرد صفائی ستھرائی کرنے کے
پابند ہونگے ۔ وزیر اعلیٰ نے مزید بتایا کہ کے آئی یو کے طلباء و طالبات کو
اُس وقت تک ڈگری جاری نہیں کی جائے گی جب تک وہ 48 گھنٹے سماجی خدمت سر
انجام دینے کا ثبوت/سرٹیفیکٹ پیش نہیں کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر
گلگت بلتستان کے نوجوانوں پر خصوصی زور دیا کہ وہ اپنی زندگی میں سماجی
خدمت کو بھرپور اہمیت دیں۔
عوام کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے اِس اہم قدم کو گلگت بلتستان کے لئے نیک
شگون قرار دیا جا رہا ہے مگر ہماری ناقص رائے ہے کہ اس غیر معمولی قدم کو
مزید مستحکم کرنے اور اسے پیشہ وارانہ سانچے میں ڈالنے کی اشد ضرورت
ہے۔کیونکہ سماجی بہبود یا سماجی خدمت با قاعدہ ایک فلسفے کا نام ہے اور یہ
مکمل طور پر سائنسی اپروچ کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں چند تجاویز پیش خدمت
ہیں۔
۱۔سماجی بہبود (Social Work) با ضابطہ ایک مضمون ہے۔ جسے پاکستان کے
تقریباً تمام کالجز اور جامعات میں بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح پر
پڑھایا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی ایک دو کالجز میں بی اے کی سطح پر یہ
مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ اس مضمون کو تمام کالجز میں رائج کرنے کی ضرورت ہے
جبکہ کے آئی یو اور بلتستان یونیورسٹی میں بھی سماجی بہبود کا مضمون متعارف
کرانا نا گزیر ہے۔
۲۔اخبارات کی خبروں کے مطابق وزیر اعلیٰ نے سماجی خدمت بروئے کار لانے کے
حوالے سے سکولوں اور یونیورسٹی کا ذکر توکیا ہے مگر کالجز کی بات نہیں کی
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کالجز کے طلباء و طالبات کو بھی اس کا پابند کیا
جائے۔
۳۔پاکستان بھر میں اور گلگت بلتستان میں ایک سرکاری ادارہ ’’محکمہ سماجی
بہبود‘‘ موجود ہے ۔جس کا پورا ایک سیٹ اپ ، دفاتر ، عملہ اور بجٹ موجود ہے
۔ جناب وزیر اعلیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ محکمہ سماجی بہبود کو مزید فعال
کرنے اور اس محکمہ کے ذریعے سماجی خدمت کو عوامی سطح تک مربوط طریقے سے
پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
۴۔پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر باضابطہ طور پر ’’ وزارت ِسماجی
بہبود‘‘ موجود ہے ۔ گلگت بلتستان میں سماجی خدمت کو بڑی سطح پر پروان
چڑھانے کے لئے اس وزارت کو فعال کرنے، صوبائی وزیر سماجی بہبود کی تعیناتی
اور نظامتِ سماجی بہبود کے دائرہ کار کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔
۵۔ وزیر اعلیٰ صاحب آپ جانتے ہیں کہ وفاقی سطح پر سماجی بہبود کے کئی اہم
ذیلی ادارے بھی موجود ہیں۔ آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں ان
ذیلی اداروں کی ذیلی شاخوں کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
۶۔ جنابِ وزیر اعلیٰ ، گلگت بلتستان میں سماجی خدمت کی ترقی و ترویج کے لئے
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی اور پالیسی سازی بھی کی
جائے۔ تاکہ اس کے طویل ا لمدتی ثمرات حاصل ہو سکیں۔
دردِ دل کو عام کرنے سے چمن کِھل جائے گا
روح کو اک تازگی ،دل کو سکوں مِل جائے گا
تھام لو گے ہاتھ جب تم بے کسوں کے اشتیاق
زخم تیرا جسم و جاں کا ایک دن سِل جائے گا |
|