ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی

 تھیلا مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال رہا جب کہ تھیلا شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چلا آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘ کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے گا۔

تھیلا مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعد میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میں آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے وہ مزید بل برابر اور بار بار لٹتا چلا جاتا۔

ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں ملائی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے بالا لوجک تھی۔ دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک بھی زندہ نہ پھرتا۔

یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے والا پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ آپ سے شغلا لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔ بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ علامتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں داخل ہے۔

سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘ فٹافٹ وہ کچھ بتلا دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو گا۔ زبانی کلامی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ اللہ نے اسے دو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔ تھیلا مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔ لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔

اللہ نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حالات کے تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 211295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.