اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔
بنے میاں کا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین بار
منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی کھتی میں ایک رکھ دی۔
وہ روتا ہوا گھر چلا گیا۔ بنے میاں بڑے غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر
ناصرف مجھ پر برس پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس
رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے کوئی پرانا بدلا
چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو
کا منہ مار گیا۔ میں نے بامشکل درگزر سے کام لیا۔
اس نے ہاتھ چلا لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا ہوں اسی لیے زبان
بھی دیر تک چلاتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ
تو چپ ہے۔ میں بچوں کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا
جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔
کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی جب پہاگاں گھر
پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل
ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک تھا مگر شک یقین میں نہ بدلا تھا۔
اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو جاتا۔ کیجو
دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب جعلی کرتی لیکن اس کا یہ
فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔ پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی
نانی تھی۔ بول بولارے کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔
ماضی اور حال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں
رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔
جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی سزا ملی تھی‘ میری چپ
نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو
سے تعلق خراب ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔ |