وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے
لگا رہا تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی
تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا ہوا جو بلا
بتلائے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔
وہ تو چلا گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔
اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ اللہ خیر کرے اور اللہ
جو بھی دے نیک اور زندگی والا دے۔
دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس نے کرنا ہے۔
آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی چھوڑی۔
ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی
چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ لینے آیا ہو گا‘
ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو
دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے چھتر کھا رہا ہوگا۔
اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے
کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔ کسی مار پر گیا ہے
ورنہ اس طرح سے نہ بھگ نکلتا۔ تم کیا جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔
اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔
اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا
تمہیں نہیں پتا
نہیں تو
ادھر کان کرو‘ بیبو
بیبو کون
واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی
ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں
جی ہاں
بڑا چھپا رستم نکلا
پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں، قیافوں اندازوں کا انبار لگ
جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت
کا کوئی انتظار نہیں کرتا۔
منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ ہی گیا اور سر سٹ
کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی نے پوچھا
کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا
بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز اختیار کرتے
ہو۔
یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے پوٹی نہیں آئی۔ لگا
تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر
اٹھ آیا ہوں۔
سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ نکلا چوہا جگو نے
ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا
ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو نا۔
پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا ہے وہ میں ہی
جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا
ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی لگ گئی۔ جگو ہی نے
سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں پریشان ہوتے ہو‘ اللہ بھلی کرے۔ |