مؤلف :۰۰ش فرخ
صفحات :۲۷۰۰۰،۰قیمت:۰۴۹۵۰روپے
ناشر :۰۰مکتبۂ دانیال، عبداﷲ ہارون روڈ، صدر، کراچی
مبصر—صابر عدنانی
ش فرخ کا یہ سفرنامہ امریکی تہذیب و تمدن کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
انھوں نے جہاں جہاں سفرکیا، ہمیں وہ ایک صحافی اور سیاح نظر آئیں۔ اس کتاب
میں ابتدائیہ کے علاوہ آٹھ ابواب موجود ہیں۔ انھوں نے اپنے ابتدائیہ کو
نثری نظم سے آراستہ کیا ہے۔ نیویارک سے سیکرامینٹو، نیوجرزی، نیویارک،
اوہائیو، انڈیانا، شکاگو، آئیووا، نیبراسکا، ویامنگ، یوٹاہ، نیواڈا کا ذکر
کرتے ہوئے ش فرخ کہتی ہیں کہ جب اٹھارہ سال پہلے امریکا آئی تو سب کچھ بڑا
کھلا کھلا اور اچھا لگ رہا تھا۔ تیزرفتاری، بلندپروازی، نئی دنیا کے رہنے
والوں کی میکانکی دنیا، تکنیکی جولانیاں، ان سب نے مجھے اکسایا تھا کہ میرے
بارے میں لکھو۔
یقینا جو کچھ ش فرخ نے دیکھا وہ سب کچھ انھوں نے اپنے انداز میں لکھ دیا۔
نمود ونمائش، تہذیبی، سماجی و نفسیاتی باریکیاں اور امریکی معاشرے میں
بزرگوں کی تنہائی۔ وہ جہاں جہاں جاتیں اُنھیں نئی نئی کہانیاں ملتیں، جنھیں
وہ خوب صورتی سے لکھتی چلی جاتی ہیں۔ وہ ایک نرسنگ ہوم کا ذکر کرتے ہوئے
کہتی ہیں کہ ’’یہی آج کی جدید اور مصروف دنیا کا قرینہ ہے۔ بچے اٹھارہ سال
کی عمر کو پہنچ جائیں تو والدین کا گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ نئے اُفق کی تلاش
میں، زندگی گزارنے کے لیے مواقع کی تلاش میں، جب وہ سب کچھ کرچکیں اور
والدین پھر بھی زندہ ہوں تو وہ حکومت یا فلاحی اداروں کی ذمے داری بن جاتے
ہیں جسے مشرق کی روایت پرستی ناپسند کرتی ہے۔‘‘ انھوں نے مغرب کی اس مادر
پدر آزادی پر اپنے قلم سے ضرب لگائی ہے۔
ش فرخ کا سیکرامینٹومیں قیام بڑا آرام دہ اور پرسکون تھا۔ ایک دن وہ پرانے
سیکرامینٹومیں دن بھرگھومنے کے بعد لکڑی کے ایک چبوترے پر بیٹھ کر سستانے
لگیں اور سگریٹ جلانے لگیں تو ایک ہاتھ بڑھا، وہ سگریٹ مانگ رہا تھا۔
امریکا میں روٹی سستی، کافی کا ایک کپ، ٹھنڈے مشروب کا ایک ٹِن بلکہ بیئرکا
ایک کین بھی سگریٹ کے ایک پیکٹ سے سستا ہے۔
انھوں نے پانچ روزہ ہیگ کانفرنس میں شرکت کے ساتھ اس بات کا بھی ذکر کیا ہے
کہ وہ پیرس، برلن، ہیگ، فرینکفرٹ، ہائیڈل برگ، لیکسمبرگ، بلجیم، ایمسٹرڈم
کا سفر کرتے ہوئے عورتوں اور مردوں کی کہانیوں، چھوٹے چھوٹے جرائم اور
بیمار ذہنیت کرداروں کواپنی ڈائری میں نوٹ کرتی رہیں۔
برلن سے فرینکفرٹ کے لیے روانہ ہوتے وقت ش فرخ کے دل میں ایک خواہش تھی کہ
یہاں ایک بار پھر آیا جائے اور اسے مزید تفصیل سے جانا جائے۔ وہ ہائیڈل برگ
جانے کا ارادہ کرتی ہیں، خاص طور پر وہاں کی یونی ورسٹی ضرور دیکھنا چاہتی
ہیں، کیوں کہ اُن کے علم میں یہ بات ہے کہ وہاں ’علامہ اقبال چیئر‘ ہے۔
ہائیڈل برگ یونی ورسٹی علامہ اقبال کی درس گاہ تھی۔
کشور ناہید نے اپنے ایک کالم میں لکھاہے’’ش فرخ کے سفرنامے میں صفحہ پلٹتے
جائیے۔ ہر جگہ آپ کی نئے منظر اور نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔ یوں لگتا ہے
کہ جیسے آپ فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔
|