’’آخری سواریاں‘‘--- سید محمد اشرف کا شاہ کار ناول

مشہور فکشن رائٹر سید محمد اشرف کے تازہ ترین بیانیہ ناول آخری سواریاں پر ڈاکٹر مشاہدرضوی کا مرقومہ تبصرہ ڈاکٹر مشاہدرضوی آن لائن ٹیم
بر صغیر کے ممتاز فکشن رائٹر سید محمد اشرف ادبی دنیا کے اُس معروف اور معتبر فن کا ر کا نام ہے جنھوں نے اپنی پہلی ہی پیش کش ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ سے داد و تحسین کا حق اپنے نام محفوظ کرالیا تھا۔ ’’نمبر دار کا نیلا‘‘ اور ’’بادِصبا کا انتظار‘‘ سے لے کر ’’آخری سواریاں‘‘ تک کا یہ طویل سفر سید محمد اشرف نے بڑی کامیابی و کامرانی سے طَے کیا ہے۔ ادبی دنیا کے قد آور ناقدین اور مشہور ادبی شخصیات نے اشرف صاحب کی دل کھول کر تعریف و توصیف کی ہے۔

سید محمد اشرف کا تازہ ترین ناول ’’آخری سواریاں‘‘ ایک درد مند دل کے حامل ، محبتیں لٹانے والے سچے قلم کار کی آپ بیتی محسوس ہوتا ہے۔ ایک اچھی ادبی کاوش کی سب سے اہم خوبی یہی ہوتی ہے کہ اسے ایک بار پڑھنے کے بعد بار بار پڑھنے کا شوق انگڑائیاں لیتا ہوا محسوس ہو ۔ ’’آخری سواریاں‘‘ ایک ایسا ہی دل چسپ بیانیہ ناول ہے جسے ایک بار پڑھنے کے بعد مجھے دوبارہ ، سہ بارہ پڑھنے کی خواہش جاگ اُٹھی۔

فرحت احساس کے بہ قول: ’’سید محمد اشرف کو نام نہاد جدیدیت کے دشتِ بے اماں میں اردو افسانے کے خواجہ خضر کے کردار کی شکل میں یاد کیا جاتا ہے۔ جس نے اردو میں فطری قصّہ گوئی کی باز آبادکاری اور تقلید و آورد کے بیانیہ کو بے دخل کیے جانے کی راہ روشن کی ہے۔‘‘

اردو افسانے کے خواجہ خضر سید محمداشرف کا یہ ناول اپنی زیریں رَو میں اُس منظر کا تہذیبی و تاریخی اظہاریہ سمیٹے ہوئے آگے بڑھتا ہے جس کو ہم اپنی تہذیب و تمدن ، طرزِ معاشرت ، یکجہتی و یگانگت ، خلوص و پیار ، ذہنی و سماجی ہم آہنگی ، مؤدت و مروّت اور اعلیٰ اقدار کا سنہری دَورکہہ سکتے ہیں۔ جو ہماری کم نصیبی سے آج قلوب و اَذہان کی دنیا سے رفتہ رفتہ محو ہوتی جارہی ہیں اور جس کے سبب معاشرہ ایک عجیب سی کشمکش ، بدحالی اور انارکی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ سید محمد اشرف نے ’’آخری سواریاں‘‘ میں بھارت کی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے مٹتے نقوش کو بڑے ہی دکھ درداور کرب و آلام کے جلو میں خوب صورت رمز و کنایہ اور اچھوتی استعارہ سازی سے عمدہ محاورات ، حسین تراکیب اور الفاظ کا صناعانہ استعمال کرتے ہوئے پیش کیاہے۔ جس سے قاری ناول ختم ہونے تک اُس کی گرفت سے باہر نکل نہیں پاتا اور وہ خود بھی غیر محسوس طور پر ناول نگار کے ساتھ ساتھ ’’آخری سواریاں‘‘ کا سفر طَے کرنے لگتا ہے۔

اسیر بادشاہ کے سفر کا دل چسپ واقعہ ہو یا بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان کے جملہ لوازمات کا احوال یا شام لال کی بیٹی کے بیاہ کی مذہبی رسوم کا بیان یا ناول نگار کی خود اپنی زندگی کے دیگر واقعات کا مربوط منظر نامہ ، اِن سب کے بین السطور میں سید محمد اشرف نے زندہ در گور ہوتی اُجلی تہذیب کا وہ درد انگیز نوحہ پیش کیا ہے جو ہمیں بھی ایک حیرت انگیز کربیہ آہنگ سے دوچار کرتا ہے۔

’’آخری سواریاں‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری ’’ہونٹوں پہ تبسم ہے تو آنکھوں میں لڑی ہے‘‘ کی مجسم تصویر بن جاتا ہے۔ کہیں زیرِ لب مسکان اِٹھلاتی ہے تو کہیں بے ساختہ آنکھیں چھلک چھلک پڑتی ہیں۔ اردو کی قدیم اور فطری اسطوریاتی قصہ گوئی اور جدید طرزِ اظہار کے حسین و جمیل امتزاج کے اِس ناول کی بہ قول عزیز نبیل وہ اہم ترین خوبی ہے جو کہ :’’ اِس ناول کو فکشن کے مقام سے گذار کر خود نوشت آپ بیتی کے درجہ تک لے آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اِسے ’گاہے گاہے باز خواں ‘ کا معراج حاصل ہونا چاہیے۔ ‘‘ جس میں انسانی نفسیات کی نزاکتوں اورانسانی لطافتوں کو تصویریت کے حُسن اور منظر کشی کی جمالیات سے یوں بیان کیا ہے کہ اِس کا ہر ہر کردار اپنی جگہ مکمل اہمیت کا حامل دکھائی دیتا ہے جنھیں قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی بھلا نہیں پاتا۔ دیہی زندگی اور وہاں کے نشیب و فراز کی بھرپور عکاسی علاقائی بولیوں کا خلاقانہ استعمال کرتے ہوئے جب ناول نگار بیان کرتا ہے توقاری بھی اپنے آپ کو اُسی جگہ موجود پاتا ہے۔ساتھ ہی شہری تہذیب و کلچر کا بیان بھی وہاں کے لوازمات و وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کیا ہے جو دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی۔اس ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے تہذیبی و تاریخی رنگارنگی سے مملو قرۃالعین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" کی بھی یاد آتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ"آخری سواریاں"۔۔۔۔ "آگ کا دریا" کی کامیاب ترین توسیع ہے، جہاں ہندوستان کی تہذیبی تاریخ کا دریا سمٹا ہوا ہے۔

سید محمد اشرف کا ناول ’’آخری سواریاں‘‘ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی بہت خوب بلکہ خوب تر ہے، قدم قدم پر ناول نگار کی زبان و بیان پر ادیبانہ مہارت اور عالمانہ دسترس کا نظارا کیا جاسکتا ہے۔ سہل انگاری کے اِس دَور میں جب کہ ایسی چمکتی ، دمکتی، بولتی اور لہریں لیتی ہوئی نثر لکھنے والے خال خال دکھائی دیتے ہیں ایسے میں فکشن اور زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کو اِس ناول کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

اردو افسانے کے خواجہ خضر سید محمداشرف کا شاہ کار ناول ’’آخری سواریاں‘‘ رواں صدی کے نمایاں ناولوں میں ایک بہترین اضافہ ہے جو ہر اعتبار سے لائقِ تحسین اور قابلِ تعریف ہے ۔ یقینا آنے والی نسلیں اِس ناول اور ناول نگار کو ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
( ۱۳؍ اگست ۲۰۱۶ء بروز سنیچر دوپہر ۵۸:۲)
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 647318 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More