کوئٹہ لہو لہو

 ابھی آٹھ اگست کا غم ہلکا نہیں ہوا تھا کہ ظالموں نے ہمارے ایک اور باغ کو ویران کر دیا۔مائیں اپنے بچو ں کا غم ، بہنیں اپنے بھائیوں کی جدائی،بیویاں اپنے شوہروں کا دردبچے اپنے والدین کا بچھڑنا بھول نہ پائے تھے کہ سر زمین کوئٹہ پھر سے سفاکوں کی بربریت سے لہو لہان ہو گئی۔درندہ صفت بھیڑیوں نے ہمارے باسٹھ گہرانوں کو ویران کر دیا ۔

تربیت پا نے والے ملک کے محافظ اہلکار ٹریننگ کے بعد واپس گھر کی تیاریوں میں مصروف تھے کتنوں کی شادیاں تیار تھیں کتنوں نے نئے گھر بسانے کے خواب سوچ رکھے تھے۔مائیں اپنے لخت جگروں کے دیدار کو ترس رہی تھیں ۔کتنے خاندانوں کے چراغ روشن ہونے تھے۔ہر کوئی اپنے روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی منزل کی طرف گامزن تھا دوست اپنی خوش گپیوں میں محو تھے ہر طرف سناٹا اور خاموشی تھی کہ اچانک گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کی گونج دار آوازیں سنائی دینے لگیں۔خاموشی چیخ و پکار میں بدل گئی۔نیند نے موت کو اپنی آنکھوں میں سجا لیا ۔ٹریننگ سنٹر کی عقب کی دیوار پھلانگ کر اندر آنے والے تین حیوان صفت بمبار وں نے قوم کے محافظوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور فارسی زبان میں باتیں کر رہے تھے ۔تربیت پانے والا کیڈٹ حمزہ کا کہنا ہے ہم کھانا کھانے کے بعد سو رہے تھے رات ساڑھے دس بجے کے قریب اندھا دھند فائرنگ کی آوازیں آئیں ہم فورا چار پائیوں کے نیچے چھپ گئے اور صندوق اور چارپائیاں رکھ کر دروازہ بند کر دیا کچھ دیر بعد دو یا تین آدمی آئے جنہوں نے دروازے کو لاتیں ماریں دروازہ نہ کھلنے پر آپس میں کچھ بات چیت کر کے واپس چل دیے۔سات سو کے قریب کیڈٹ ہاسٹلز اور بیرکوں میں رہائش پذیر تھے ۔

آرمی اور فرنٹیئر کے اہلکاروں نے جان پر کھیل کر ٹریننگ کالج کو بڑی تباہی سے بچا دیااور چار گھنٹے مسلسل دہشت گردوں کا مقابلے کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ کیپٹن روح اﷲ اور نائب صوبیدار محمد علی نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بمبارکو جہنم واصل کیا اور خود شہادت کا جام نوش کرتے ہوئے ابدی نیند سو گئے۔کوئٹہ کے ہسپتال صف ماتم بنے رہے۔

2016 کا سال ابتدا سے اب تک کوئٹہ والوں کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔مختلف واقعات میں بے شمار جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑیں ۔اسی سال جنوری میں پولیوٹیم کی حفاظت پر مامور 14پولیس اہلکار وں کو فائرنگ کر کے شہید کیا گیا۔فروری میں ضلع کچہری کے قریب ایف سی نشانہ بنی جس میں 16ایف سی اہلکار شہید کر دیے گئے8اگست کو کوئٹہ شہر کو خون سے نہلا دیا گیا جس میں 78اموات ہوئیں اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ حالیہ دہشت گردی کے واقع میں 62اہلکار شہید اور 200سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔اگر آرمی کے نوجوان بر وقت نہ پہونچتے تو نہ جانے دہشت گرد ہمارا سارا باغ ویران کر جاتے ۔

دہشت گردی کی کمر توڑنے اور ان کو ان کے نا پاک عزائم میں ناکام کرنے میں پاک فوج کی جرات مندانہ قربانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ضرب عضب ہویا خود کش حملے،بھارتی جارحیت ہو یا کراچی آپریشن پاک فوج نے ہر محاذپر دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔

کئی ایک سوال ایسے ہیں جو سب کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری کہتے ہیں کہ ہمیں چار پانچ دن پہلے اطلاعات موصول ہوچکی تھیں کہ دہشت گرد کوئٹہ میں داخل ہو چکے ہیں جناب وزیر اعلیٰ صاحب اگر آپ کو معلوم تھا تو پھر ان کو پکڑنے اور ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے میں کیا رکاوٹ حائل تھی کیا اسی سانحہ کے منتظر تھے ۔وقت کے حکمران حضرت عمر ؓ تو کہیں کہ اگردریا ئے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کا بھی مجھے حساب دینا ہو گااورجناب عزت مآب وزیر اعلیٰ صاحب آپ کو معلوم تھااس کے باوجود آپ خواب خرگوش کی نیند سوتے رہے اور 62خاندانوں کے چراغ گل ہو گئے سینکڑوں زخمی اور معذور ہو گئے۔ان کا حساب کون دے گا۔

دوسری بات یہ کہ جب ٹریننگ کالج کے تربیت یافتہ اہلکار اپنی پاسنگ پریٹ مکمل کر کے جا چکے تھے تو ان کو دوبارہ بلانے کی زحمت کیوں پیش آئی ان باتوں کی انکوئری ہونی چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ جنم نہ دیں اور دشمن اپنی چال میں کامیاب نہ ہو سکے۔

اس سے قبل KPK کے بادشاہ جناب خان صاحب اور خٹک صاحب اسلام آباد کے ڈی چوک میں اپنا میلہ سجائے ہوئے تھے کہ دشمن نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کے 150معماروں کو ان کی مادر علمی میں ہی خاک و خون میں نہلا کر ابدی نیند سلادیا تھا۔اس قیامت کے برپا ہونے کے بعد خان صاحب کو مجبورا اپنا ڈرامہ ختم کرنا پڑاتھا۔ اور اب ایک مرتبہ پھر خان صاحب اسلام آباد بند کرنے آ رہے ہیں ۔اﷲ ہی اس ملک اور قوم کی حفاظت فرمائے۔ان دھرنوں اور احتجاجوں نے ملکی ترقی کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ملکی معیشیت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اس دیمک میں جس کا بھی حصہ ہے وہ اخلاقی اور قانونی طو ر پر قوم کا مجرم ہے اس کے احتساب کا جوقانونی طریقہ کاروضع ہے اسی کو فالو کرتے ہوئے مطلوبہ مجرم کو انجام تک پہنچایا جائے ۔دھرنوں ،احتجاجوں اور ریلیوں کے ذریعے تھیٹر لگا کر عوام الناس کے امن و سکون اور کاروبار زندگی کو تہس نہس نہ کیا جائے۔

ابھی وقت ہے اکٹھے ہونے کا یک زبان اور یک جان ہونے کا۔دشمن طاق میں ہے وقت کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی ،مذہبی اور عسکری قیادت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دشمن کو بتا دے کہ ہم ایک ہیں ہمارا مذہب ایک ہے ہمارا درد ایک ہے ہمارے مفادات ایک ہیں۔جب ہم ایک ہوں گے تو دشمن کے محلات میں خود دراڑیں پڑیں گی اہل اسلام کامیاب ہونگے اور کفر اپنی موت آپ مرے گا۔
Muhammad Zahid Aziz
About the Author: Muhammad Zahid Aziz Read More Articles by Muhammad Zahid Aziz: 6 Articles with 5293 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.