ایسا تو پھر ہوتا ہے ایسے کاموں میں ......

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو اسلام آباد بند کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ کوئی سڑک ، سکول ، کالج ، ہسپتال بند نہیں ہونا چاہیئے ۔ نہ ہی امتحانات کا شیڈول تبدیل ہونا چاہیئے ۔فاضل جج صاحب نے مزید کہا کہ بادی النظر میں احتجاج نہیں حکومتی مشینری کو کام سے روکنے کا منصوبہ ہے ۔کرکٹ کے کھیل میں رگبی کے اصول نہیں چلنے دیں گے ۔کیا پہلے دھرنوں سے سبق نہیں سیکھا گیا ۔عمران خان جو خود کو وقت سے پہلے پاکستان کا وزیر اعظم سمجھتے ہیں انہوں نے عدالتی حکم بھی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے دھرنا ہر صورت ہوگا ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ عقل و فہم سے عاری انسان ہیں ۔ گویا عمران نے خود کو نہ صرف ریاست کے تمام اداروں کا باغی بنا لیا ہے بلکہ اب عدالتی حکم کی کھلم کھلا توہین کے مرتکب بھی ہورہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہ نواز حکومت کی بزدلی کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے اگر ابتداء میں ہی عمران خان کی بدزبانی کو روک لیاجاتاتو آج یہ نوبت نہ آتی۔ گزشتہ دھرنے کے موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ائمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتے رہے ۔ لیکن جس ائمپائر کی انگلی اٹھنے کے یہ دونوں منتظر تھے وہ نہایت دانش مند اور عقل مند ثابت ہوئے انہیں اس بات کا احساس تھا کہ پہلے مارشل لاؤں کو اب تک نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ اقتدار پر قبضہ کرکے کیوں اپنا نام ان آمروں میں لکھوائیں جو تاریخ میں بدنما داغ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ مشرف دور میں فوج کی ساکھ جس قدر خراب تھی ، آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کے دانش مندانہ فیصلوں کی بدولت نہ فوج کا وقار بلند ہوا ہے بلکہ اس وقت پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے ۔عوامی مقبولیت کے اعتبار سے جنرل راحیل شریف سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں ۔ بہرکیف ایک بار پھر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا مفاد پرست ٹولہ کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں اسلام آباد (جسے وفاقی دارالحکومت کا درجہ بھی حاصل ہے) کو بند کرکے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا تھا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیمرا کی جانب سے فراہم کردہ عمران کی جو تقریریں سنائی گئیں ہیں ان سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ عمران خان صرف احتجاج کرنے کے لیے اسلام آباد چڑھائی نہیں کررہے بلکہ ان کے مقاصد کچھ اور ہیں ۔چنانچہ انہی تقریروں کوسننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پابندی لگا دی ۔عمران خان نے عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پھر میں نا مانوں کی گردان شروع کردی ہے ۔ سانحہ کوئٹہ جس میں 65 پاکستانی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے اور ہر پاکستانی کا دل اس سانحے کی وجہ سے زخموں سے چور تھا ۔ عمران کوئٹہ میں زخمیوں کی مزاج پرسی کے لیے تو پہنچے لیکن دھرنا ختم کرناکا اعلان نہیں کیااور یہ کہتے ہوئے شہیدوں اور زخمیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا کہ کچھ بھی ہوجائے اسلام آباد ضرور بند ہوگا ۔اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عمران کو سوائے ذاتی مفادات کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔کچھ لوگ آگ لگا کر تماشہ دیکھنے کے شوقین ہیں ان کی جانب سے ایسے بیانات بھی سننے کو ملے کہ جمہوریت میں احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔لیکن کسی کو احتجاج کی آڑ میں ملک تباہ کرنے کا حق نہیں دیاجاسکتا۔ پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے ۔ کیا جمہوریت میں ریاست سے بغاوت کرنا جائز ہے ۔ ؟اگر اسی طرح سب کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو کل کوئی اور شخص کسی بھی بہانے اسلام آباد تہس نہس کرکے چلتا بنے گا کہ یہ میرا جمہوری حق تھا۔ اسلام آباد کوئی عام شہر نہیں ہے یہاں غیرملکی سفارت خانے ،سپریم کورٹ ، پارلیمنٹ ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس بھی ہیں ۔ اس اہم ترین شہر میں سیاسی سرگرمیوں کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیئے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت سے سرجیکل سٹرایکس کے ثبوت مانگے توبھارتی حکومت نے ایسا کرنے والے شخص کو ملک دشمن عناصر اور بھارت کا باغی قرار دے دیا۔اب کسی میں جرات نہیں کہ وہ بھارتی فوج اور حکومت پر انگلی اٹھائے ۔ اس کے برعکس پاکستان میں عمران خان گزشتہ تین سالوں سے رونا دھونا شروع کررکھا ہے وہ واشگاف الفاظ میں فوج کو حکومت کے خلاف اور حکومت کو فو ج مخالف ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ سرے عام لوگوں کو بجلی کے بل جمع نہ کرانے کی تلقین کرتے ہیں ،بیرون ملک پاکستانی اپنا پیسے پاکستان نہ بھیجیں ۔پارلیمنٹ کو وہ کٹھ پتلی، الیکشن کمیشن کو وہ بیکار ادارہ قرار دیتے ہیں ۔ اب صر ف عدالت عظمی باقی بچی تھی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے انکار کرکے عمران خان نے یہ بھرم بھی ختم کردیاہے ۔اب جبکہ شیطانوں کا یہ ٹولہ اسلام آباد کو بند کرنے کی تیاری کررہا ہے۔کیا اب بھی حکومت عمران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ایکشن نہ لے اور اسلام آباد کو دشمن فوج کی طرح عمران کو پاؤں تلے روندنے کی اجازت دے دے ۔ اب جبکہ یکم نومبر کو سپریم کورٹ میں بھی عمران خان کی درخواست پانامہ لیکس کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہورہی ہے اگر عمران کے پاس کرپشن کے ثبوت ہیں تو عدالت میں پیش کریں ۔ ہلے گلے اور مار دھاڑ کی کیا ضرورت ہے ۔ پولیس کا کام ڈنڈے مارنا ہے ۔اس کے سامنے تحریک انصاف کے کارکن ہوں یا مسلم لیگ کے ، ان کو جب احکامات ملتے ہیں تو وہ لاٹھیاں لے کر جلوس پر ٹوٹ پڑتی ہے ۔جب جمہوریت میں احتجاج کے نام پر حکومتی اداروں کو مفلوج کیا جائے گا تو پولیس کے ڈنڈے تو کھانے ہی پڑیں گے ۔ایسا تو پھر ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.