پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی
اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت اثر پڑتا ہے۔
پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست1947 کو آزاد ملک کی حیثیت
سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند کو ہندو مسلم
آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر آزاد کیا گیا تھا۔ بھارت جس میں ہندو
اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا۔ جبکہ مسلم اکثریتی پاکستان
کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک
نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا۔ مگر ہندو مسلم
فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات
دیکھنے کو نہیں ملے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کے چار بڑی جنگوں
جبکہ بہت ہی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ 1971 اور جنگ
آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیرکی
تحریک آزادی رہی ہے۔بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کے وجود کو قبول نہیں
لیکن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے بہت کوشش کی گئیں
جن میں آگرا ،شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس سرفہرست ہے۔
لیکن حالات ٹھیک ہونے کی بجائے دن بدن خراب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان ایک
ایٹمی ملک ہے اور پاکستان کا دنیا کے اندر ایک وجود ہے جو بھارت کو برداشت
نہیں بھارت نے شروع دن سے پاکستان میں مداخلت کی ہے اور دہشتگردی کے واقعات
کو پروان چرہایا ہے آرمی پبلک سکول کا حملہ ،باچا خان یونیورسٹی کا حملہ ،یا
پھر کوئٹہ میں وکلاء پر جو حملہ ہوا اور حال ہی میں کوئٹہ پولیس ٹریننگ
سنٹر پر حملہ ان سب کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے جو افغانستان قونصل خانوں
میں دہشتگردوں کو تربیت دے کر پاکستان میں بھیجا جاتا ہے ۔ وزیراعظم
نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس میں گزشتہ روز پیش آنے والے سانحہ اور اس کی
کڑیوں تک پہنچنے کے لئے حکمت عملی پر غور کیا گیا اجلاس میں سیاسی اور
عسکری قیادت کو بتایا گیا کہ واقعات کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں
دہشت گرد چند روز پہلے ہی افغانستان سے آئے تھے پاکستان نے بلوچستان میں
مداخلت کا معاملہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے
پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کیے جانے پر
امریکہ سمیت عالمی قوتوں کے ساتھ دوٹوک موقف اپنانے کو کہا جائے گا سانخہ
کوئٹہ کی صورت میں ہمیں بہت گہرا ذخم لگا ہے افغان ایجنسی( این ایس
ڈی)اکیلے اتنی بڑی کاروائی نہیں کرسکتی جب تک را کا تعاون اور رہنمائی حاصل
نہ ہو آج یہ بات کی جاتی ہے کہ کشمیر میں اڑی کیمپ پر حملہ کے بعد یہ توقع
کی جارہی تھی کہ بھارت نے جو ڈرامہ رچایا ہے اس کا ڈراپ سین کچھ ایسا ہی
ہوگا بھارت نے ایک طرف سرحدوں پر بلا اشتغال فائرنگ کرکے خوف ہراس پھیلانے
کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف وہ پاکستان کے اندر کاروائیوں کے
لیے افغان سرزمین اور افغان ایجنسی کو استعمال کرتا ہے انڈیا کے منصوبے
واضع ہوچکے ہیں ہمارا سب سے بڑا جرم کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کے
لیے ان کی سیاسی سفارتی اور احلاقی حمایت کی ہے کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور
پاکستان اس معاملے کو پس پشت ڈالے گا تو ہمیشہ کے لیے کشمیر ان کے ہاتھوں
سے جاتا رہے گا اب وقت ہے کچھ کرنے کا کشمیری پاکستان کی سالمیت کے لیے
قربانیاں پیش کررہے ہیں آج ہمیں آپنے پرچم کی قدر نہیں کشمیریوں سے پاکستان
کے پرچم کی قدر پوچھیں جو 2کپڑوں کو جوڑ کر ہاتھ سے چاند ستارہ بناکر انڈین
آرمی کے سامنے کھڑے ہوکر پرچم لہراتے ہیں اور بدلے میں ان کی آنکھوں کو
ضائع کیا جاتا ہے یا شہید کردیا جاتا ہے کشمیر کا مسئلہ حقیقت میں پاکستان
کا مسئلہ ہے اور ہم خود حل کریں گئے اسکابھارت کی یہ تحزیب کاری کا مقصد کہ
پاکستان کشمیر کے معاملے میں نہ بولے اور اس معاملے کو دبا دیا جائے حکومت
اور عوام کو کسی اور مسئلے میں الجھایا جائے بھارت نے شروع دن سے یہ چال
چلی ہے اس کے علاوہ ہم سی پیک منصوبے پر عمل کرکے بھارت کی اقتصادی برتری
کو چیلنج کررہے ہیں جو اس کے لیے کسی کانٹے سے کم نہیں جو مسلسل اس کی آنکھ
میں چب رہا ہے بھارت ایک طرف بلوچستان میں مسلسل کاروائی کررہا ہے تو دوسری
طرف گلگت بلتستان کی پاکستان کو دھمکیاں لگا رہا ہے یہ ہمارے علاقے ہیں
پاکستان نے اس پر قبضہ کیا ہے چند ماہ پہلے پکڑا جانے والا کلبوشن را کا
حاضر سروس ایجنٹ جس نے باقاعدہ خود بہت سارے حملوں میں ملوث ہونے کا قبول
کیا لیکن اس کے باوجود ہم بھارت کو دفاعی پوزیشن میں نہیں لاسکے جنرل
اسمبلی میں نوازشریف نے کلبوشن کا تزکرہ کرنا تو دور آپنے زہن سے بھی اس کو
دور رکھا تھا اب وقت آگیا ہے دونوں ملکوں بلکہ امریکہ سے بھی کھل کر بات کی
جائے بھارت وزیر اعظم نریندرمودی تو صاف صاف کہ چکا ہے کہ بلوچستان کے لوگ
ہمیں آزادی میں مدد دینے کے لیے پکاررہے ہیں مودی جنہیں پاکستان کے لوگ کہ
رہے ہیں وہ براہمداغ اور حریبار جیسے چند مٹھی بھر علیحدگی پسند ہیں ورنہ
بلوچستان کی ساری آبادی محب وطن ہے اور اس کا اکثر مظاہرہ ہوتا رہتا ہے جب
تک بھارت کو صاف صاف بتایا نہیں جائے گا کہ اب مزید تحزیب کاری برداشت نہیں
کی جائیگی اس وقت تک وہ دہشتگردی سے باز نہیں آئے گا ہمیں آپنے رویے سخت
کرنے ہوگے اور سنجیدہ رہ کر سخت لہجہ اختیار کرکے انڈیا کو جواب دینا ہوگا
اور میرا اظہار خیال ہے ک ہمیں آپنی خارجہ پالیسی کو ہر ممکن کوشش کرکے
بہتر سے بہتر کرنا ہوگا تاکہ بھارت کسی کاروائی سے پہلے سو بار سوچنے پر
مجبور ہو جائے میں یہاں بتاتا چلو کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے
مقاصد میں شامل ہے پاکستان کو خوشخال نہیں دیکھنا یہ ملک ترقی نہ کر پائے
پاک چائنہ راہداری کا منصوبہ پایا تکمیل تک نہ پہنچے جنگی جنون میں مبتلا
بھارت کی جانب سے ایل اوسی اور ورکنگ بانڈری پر سیز فائر کی خلافی ورزی کا
سلسلہ گزشتہ روز سے بمبر سیکٹر سیالکوٹ چپڑار سیکٹر شکر گڑھ سیکٹر پر ابھی
بھی جاری ہے جس میں اب تک بہت سارے مقامی متعدد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں
فصلوں کا مکانوں کا نقصان ہوا ہے بھارت جس معاملے پر سرحدوں کی خلاف ورزی
کا کررہا ہے اس کا مقصد پاکستان کو دبا میں لانا اور کشمیریوں کی جدوجہد سے
اس کی توجہ ہٹانا ہے بھارت نے پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے باز رکھنے
کے لیے کئی راستے اختیار کیے ہیں عالمی برادری کو اور پاکستان کے اداروں کو
نوٹس لینا چاہیے جن کا مقصد علاقے کا امن تباہ کرنا ہے اس کے لیے بھارتی
ہائی کمیشنر یا اس کے نائب صدر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ
کروانا کافی نہیں بلکہ اس خطرناک صورتحال کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں
بھارت یقینا آپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائے اور یہ تب ممکن ہے
جب پاک آرمی پاکستان کی عوام اور حکومت کی طرف سے اس کی زبان میں جواب جائے
گا-
|