صلح حدیبیہ کے معاہدہ نے رسول
خداﷺ کو جنوب (مکہ)کی طرف سے مطمئن کر دیا اور اس اطمینان کے سبب عرب کے
سربرآوردہ افراد کا ایک گروہ اسلام کا گرویدہ ہوگیا۔ اس موقع پر اسلام کے
عظیم رہنما نے فرصت کو غنیمت جانا اور اس زمانہ کے زمہ داران حکومت، قبائل
کے سردار اور اس وقت کے عیسائی مذہب کے رہبروں سے مذاکرہ اور مکاتبہ کا
سلسلہ شروع کیا اور اپنے آئین کو جو ایک عالمی آئین ہے، خدا کے حکم سے دنیا
کی قوموں کے سامنے پیش کیا۔
رسول خدا ﷺ نے جو خط دعوت اسلام کے عنوان سے سلاطین، قبائل کے روساء اور اس
زمانہ کی سیاسی و مذہبی نمایاں شخصیتوں کو تحریر فرمائے تھے وہ آپ کی دعوت
کی حکایت کرتے ہیں۔
اس وقت ان ۱۸۵ خطوط کے متن موجود ہیں جن کو پیغمبر ﷺ نے تبلیغ یا دعوت
اسلام کےلئے بعنوان میثاق و پیمان لکھا تھا۔ (الوثائق السیاسیتہ)
یہ خط دعوت و تبلیغ میں روش اسلام کو بتاتے ہیں کہ جس کی بنیاد منطق اور
برہان پر ہے نہ کہ جنگ و شمشیر پر جو حقائق ان خطوط میں پوشیدہ ہیں اور
دلائل و اشارات و نصیحتیں اور راہنمائی جو رسول خداﷺ نے دوسری قوموں کے
سامنے پیش کی ہے، وہ اسلام کے عالمی پیغام ہونے اور ان کی دعوت کے طریقہ کا
منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ڈپلومیٹک نکات کی رعایت
سلاطین کے پاس اور مختلف علاقوں میں رسول خدا ﷺ کے بھیجے ہوئے افراد اور
سفراء معارف اسلامی سے آگاہ اور اس پر تسلط رکھنے کے ساتھ ساتھ ادب و سخن
میں نظریہ رکھتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کے معاشرتی اور دینی آداب و
رسوم سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس زمانہ کی طاقتوں کا سامنا کرنے میں عین یقین
اور لہجہ کی صفائی کے ساتھ ان کی ظاہری وضع قطع بھی ڈپلومیٹک نکات کی رعایت
کی حکایت کرتی تھی۔
رسول خداﷺ نے ان خطوط کے ساتھ جس میں آپ کا عالمی پیغام منعکس تھا ایران،
روم، حبشہ، مصر، یمامہ، بحرین، اردن اور حیرہ کی طرف ایک دن میں چھ چیدہ
افراد کو روانہ فرمایا۔ (طبقات ابن سعد)
رسول خدا ﷺان خطوط پر مہر (محمد رسول اللہ) جو کہ آپ کی انگوٹھی پر کھدا
ہوا تھا لگایا کرتے تھے۔ ان خطوط کو بند کرکے مخصوص موم (لاک) سے چپکا دیا
کرتے تھے۔ (حوالہ سابق)
جس زمانہ میں آپ ان خطوط کو لکھ رہے تھے، اس وقت ایران و روم دو بڑی طاقتیں
حکمران تھیں اور دونوں اپنے اپنے ملک کا رقبہ بڑھانے کے سلسلہ میں ایک
دوسرے کے بہت زبردست رقیب تھیں اور ان دونوں طاقتوں نے سیاست کی نبض کو
اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ قیصر روم کے نام رسول خدا ﷺ کے خط کا مضمون یہ
تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول خدا ﷺ کی طرف سے روم کے عظیم قیصر کے نام
سچائی اور ہدایت کا اتباع کرنے والوں پر سلام، میں تم کو دین اسلام کی طرف
دعوت دیتا ہوں اسلام کو قبول کرلو تاکہ صحیح و سالم رہو اور خدا بھی تم کو
(خود تمہارے ایمان کا اور تمہارے زیر نگین افراد کے ایمان کا) دوہرا اجر دے
گا۔ اے اہل کتاب! میں تم کو اس بات کی طرف دعوت دیتا ہوں جو تمہارے اور
ہمارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ سوائے خدائے واحد کے ہم کسی کی
عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے بعض، بعض
کو رب نہ بنائے اور جب وہ لوگ روگردانی کریں تو کہو کہ تم گواہ رہو ہم
مسلمان ہیں۔ (آل عمران:۶۴)
محمد رسول اللہ ﷺتاریخ یعقوبی ج۲ ص ۷۷
عبداللہ بن حذافہ نے پیغمبر کا خط ایران کے دربار میں پہنچایا۔ جب مترجمین
نے بادشاہ کے سامنے خط پڑھا تو وہ بھڑک اٹھا کہ محمدﷺ کون ہے جو اپنے نام
کو میرے نام سے پہلے لکھتا ہے اور پورا خط پڑھنے سے پہلے ہی اس نے اس کو
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
رسول خداﷺ کا قاصد مدینہ واپس آیا اور اس نے سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے
ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا”خدایا اس شخص نے میرا خط پھاڑ
ڈالا تو اس کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔“
خسرو پرویز کی گستاخی اور یمن کے لوگوں کا مسلمان ہونا
ساسانی بادشاہ نے طاقت کے نشہ میں چور ہو کر اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی یمن کے
حاکم ”باذان“ کو لکھا کہ مجھ کو خبر ملی ہے کہ مکہ میں کسی قریش نے نبوت کا
دعویٰ کیا ہے تم دو دلیر آدمیوں کو وہاں بھیجو تاکہ وہ اس کو گرفتار کر کے
میرے پاس لائیں۔
حاکم یمن ”باذان“ نے مرکز کے حکم کے مطابق اپنے دو دلیر آدمیوں کو حجاز
روانہ کیا۔ جب وہ لوگ طائف پہنچے تو وہاں کے ایک شخص نے ان کی مدینہ تک
راہنمائی کی وہ دونوں افراد مدینہ پہنچے اور باذان کا خط پیغمبرﷺ کو دیا۔
آپ کی عظمت و ہیبت اور آپ کے اطمینان نے تعینات افراد کو وحشت میں ڈال دیا۔
جب پیغمبر نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو لرزنے لگے اس کے بعد آپ نے
فرمایا: کہ ”کل میں اپنا نظریہ تمہارے سامنے پیش کروں گا۔ اس کے دوسرے دن
جب والیان یمن جواب لینے کے لیے پیغمبرﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا
کہ ”پروردگار عالم نے مجھے خبر دی ہے کہ کل رات جب رات کے سات گھنٹے گزر
چکے تھے۔ (۱۰ جمادی الاول سنہ ۷ ہجری کو) ”خسرو پرویز“ اپنے بیٹے ”شیرویہ“
کے ہاتھوں قتل ہوگیا اور اس کا بیٹا تخت سلطنت پر قابض ہوگیا۔ پھر رسول
اللہ نے ان کو بیش قیمت ہدیہ دے کر یمن روانہ کیا۔ انہوں نے یمن کی راہ لی
اور باذان کو اس خبر سے مطلع کیا۔
باذان نے کہا کہ ”اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر یقیناً وہ آسمانی پیامبر ہے اور
اس کی پیروی کرنی چاہیے، ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ شیرویہ کا خط حاکم
یمن کے نام پہنچا اس میں لکھا تھا کہ ”آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے خسرو پرویز کو
قتل کردیا اور ملت کا غم و غصہ اس بات کا باعث بنا کہ میں اس کو قتل کر دوں
اس لیے کہ اس نے فارس کے اشراف کو قتل کر ڈالا اور بزرگوں کو متفرق کر دیا،
جب میرا خط تمہارے ہاتھ میں پہنچے تو تم لوگوں سے میری بیعت لو اور اس شخص
سے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کے خلاف میرے باپ نے حکم دیا تھا، ہرگز
سختی کا برتاؤ نہ کرنا۔ یہاں تک کہ میرا کوئی نیا حکم تم تک پہنچے۔
شیرویہ کے خط نے اس خبر کی تائید کر دی جو رسول خداﷺ نے عالم غیب سے اور
وحی کے ذریعہ دی تھی۔ ایرانی نژاد حاکم باذان اور ملک یمن کے تمام کارندے
جو ایرانی تھے، مسلمان ہوگئے اور یمن کے لوگ رفتہ رفتہ حلقہ بگوش اسلام
ہونے لگے۔ باذان نے رسول خدا کے نام ایک خط میں اپنے اور حکومت کے کارندوں
کے اسلام لانے کی خبر پہنچا دی۔ (تاریخ کامل ج۲ ص ۲۴۶)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراءباعث عزت و رہنمائی ہوگی |