’’بھاگل پور نامہ ‘‘۔ مولانا تحسینؔ رضوی کی منفرد کاوش
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
مولاناتحسین عالم تحسینؔ رضوی بھاگلپوری
ایک بہترین عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ شاعر بھی ہیں ۔ زمانۂ طالبِ
علمی ہی سے ان کا اشہبِ قلم میدانِ شعر و ادب میں اپنی فکری جولانیاں
دکھاتا رہا ہے ۔ آپ مذہب اور ادب دونوں سے اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اب تک کئی کتب منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ شعر گوئی میں آپ
کو کافی ملکہ حاصل ہے۔ تقدیسی شاعری آپ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ تاج الشریعہ
علامہ اختر رضا قادری برکاتی ازہری میاں دام ظلہٗ کی شان میں آپ کی تحریر
کردہ مناقب کے مجموعے نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا۔
تحسینؔ صاحب کا شعری و نثری سفر مسلسل جاری و ساری ہے۔ اس وقت میرے مطالعہ
کے میز پر آپ کی ایک منفرد کاوش ’’بھاگلپور نامہ‘‘ سجی ہوئی ہے۔ ۱۵؍
عنوانات پر مشتمل۳۴۰؍ اشعار کے اس بصیرت افروز شعری مجموعے کو پڑھنے کے بعد
بے ساختہ شاعرِ محترم کے لیے دل سے داد نکلتی ہے ۔
’’بھاگلپور نامہ‘‘ کے فہرست عنوانات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے کس قدر
حُسنِ انتخاب کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا والہانہ اظہار اشعار کی
صورت میں قارئین کی نذر کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل منظومات پر خالص مثنوی
، قصیدہ ، منقبت ، مرثیہ ، شعرِ آشوب یا شہرِ آشوب کا ٹھپہ لگاکر کسی ایک
صنف سے معنون نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں!یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ’’ بھاگلپور
نامہ‘‘ میں شامل منظومات کی زیریں رَو میں قصیدہ کا آہنگ بھی ہے اور منقبت
کا رنگ بھی، مثنوی کا انداز بھی ہے اور مرثیہ کا کرب بھی، شعرِ آشوب اور
شہرِ آشوب کا الم انگیز اظہاریہ بھی۔ غرض یہ کہ ’’بھاگلپور نامہ‘‘ شاعر کے
تنوعِ خیال کو ظاہر کرتا ہے۔
اس نظم میں شاعر نے علما و صلحا سے جس عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار کیا
ہے اُس میں افراط و تفریظ کا شائبہ بھی نہیں گذرتا ۔ تحسینؔ صاحب نے اپنی
عقیدت کو محتاط وارفتگی کا مظہر بنایا ہے۔اس ضمن میں ’’عالمانِ دیں نواز‘‘۔
’’گلشن شہباز‘‘۔ ’’شانِ شہباز‘‘۔ اور ’سجادگانِ شہباز‘‘ کے علاوہ ’’دمڑیا
پیر کی حسین جاگیر‘‘ ۔’’دمڑیا پیر کی مشہور کرامت‘‘۔ اور ’’دمڑیا پیر کے
سجادگان‘‘ کا مطالعہ ہمارے دعوے کی توثیق کے لیے کافی ہے۔ ان منظومات میں
آپ نے بھاگلپور کے اولیا، صوفیہ ، علما ، صلحا، حفاظ ، قرا، شعرا، ادبا،
اطبا، اساتذہ، صحافی نیز جملہ شعبہ ہاے حیات سے تعلق رکھنے والے حضرات اور
دیگر اکابر کے ناموں کو اشعار میں نگینے کی طرح اس چابکدستی سے جَڑ دیا ہے
کہ فنّی سقم کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔بلکہ کہیں کہیں ان ناموں سے تجنیس کا
کام بھی لیا گیا ہے۔ ان حضرات کے مراتب کو بیان کرنے میں آپ نے بے جا
مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا۔
’’پیغامِ امروز‘‘ ۔’’جسم اور رو ح کی بیماری ‘‘۔ صوفی اور کوفی مسلم کا
وجود‘‘۔ نفسِ امارہ کی شیطنت‘‘اور ’’اصلی اور نقلی پیروں کی روایت و
درایت‘‘ جیسی نظمیں تو خاصے کی چیز ہیں ۔ ان نظموں سے تحسین ؔ صاحب کی
انقلابِ امت، اصلاحِ معاشرہ، تزکیۂ باطن اوربیداریِ ملت کے تئیں سچی تڑپ
اور کسک کا اظہار ہوتاہے۔ یہ نظمیں ہر اعتبار سے لایقِ تحسین و آفرین ہیں۔
شعر ی و فنّی خوبیوں ، تراکیب ، ایجاز ، معنی آفرینی ، حُسنِ تخیل ،
اظہارِ صداقت اور سلاست و روانی سے مملومختلف نظموں سے چنیدہ اشعار نشانِ
خاطر فرمائیں اور شاعرِ محترم کو ایسے نفیس اور عمدہ منظوم تذکرے پر مبارک
باد پیش کریں ؎
مصلحِ دیں ہیں ، امامِ دیں ہیں تیری خاک میں
اور قمرالدین ہیں تیرے دلِ نمناک میں
انتم الاعلون کتنا صاف ہے اعلانِ حق
شرط یہ ہے تو رہے مومن یہ ہے فرمانِ حق
اے مسلماں آج تیرا رنگ ہے بدلا ہوا
طَور ہے بدلا ہوا اور ڈھنگ ہے بدلا ہوا
شکلِ فاسق میں یہ تیری زندگی اچھی نہیں
مصطفی والے کی ایسی بندگی اچھی نہیں
اس مجموعے میں شامل’’ جسم اور روح کی بیماریاں ‘‘ نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی
ہے۔ تحسینؔ صاحب نے اس میں اصلاحِ فکر و عمل کا بڑا اچھوتا اور پُر تاثیر
بیان کیا ہے ۔ فّنی اعتبار سے بھی یہ نظم سراہے جانے کے قابل ہے ۔ اکثر
اشعار کے مصرعِ اولیٰ ’’ جسم کی بیماری‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اورمصرعِ ثانی
’’روح کی بیماری ‘‘ سے ۔ مثلاًدو شعر دیکھیں ؎
جسم کی بیماری ہے سرطانؔ ،تپ ؔ ، کھانسی ؔ ، دمہؔ
روح کی بیماری ہے کینہؔ ، حسدؔ ، کبرؔ و ریاؔ
جسم کی بیماری ہیضہ ؔ ، کوڑھؔ ، متلیؔ ، دست ؔ ہے
روح کی بیماری کارِ بد میں رہنا مست ہے
اس مجموے سے مزید مثالیں نہ دیتے ہوئے براے راست ’’بھاگلپور نامہ‘‘ کے
مطالعہ کی دعوت دیتا ہوں۔ مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی صاحب کو اس
خوبصورت اور بصیرت افروز مجموعے کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک پیش ہے۔ اللہ
عزوجل اس کو شرفِ قبول بخشے۔(آمین)
(ڈاکٹر ) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
سروے نمبر ۳۹ پلاٹ نمبر ۱۴ نیااسلام پورہ
مالیگاؤں (ناسک)
09420230235 / 09021761740
|
|