’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ‘‘ --ایک عمدہ کارنامہ
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ‘‘ --ایک عمدہ
کارنامہ
---٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا یہ بے پناہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ساری
مخلوقات میں افضل و اشرف بنایا۔ ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بندوں
کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا،
تاکہ وہ اس کے بندوں کو کفر و شرک اور گمراہیت و ضلالت کی تاریکی سے نکال
کر وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کی بارگاہِ اقدس میں سجدہ ریز کریں اور اس کی
وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس کے نبیوں اور رسولوں کی نبوت و رسالت کو بھی
سچے دل سے تسلیم کریں ۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ چاہتا تو اپنے
نبیوںاور رسولوں کو دنیا میں بھیجے بغیر بھی لوگوں کو سیدھے راستے پر
لاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں کسی کا محتا ج نہیں ہے بل کہ کائنات
کا ذرّہ ذرّہ اسی کا محتاجِ کرم ہے ۔ لیکن یہ اس کی مرضی اور مشیت ہے کہ اس
کے بندے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرکے حق کی راہ میں مشقتیں
جھیلیں تاکہ وہ اپنے فضل اور عطا ے خاص سے انھیں بلند درجات سے نوازے ۔
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی بجا آوری کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں
کو عہد بہ عہد مبعوث فرمایا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب احمدِ
مجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر دروازۂ نبوت و رسالت کو
بند کردیا ۔ اب اگر اس کے بندے گمراہی اور ضلالت میں مبتلاہوں گے تو ان کی
ہدایت و رہنمائی کے لیے اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ عظیم
منصب امتِ محمدیہ کے سپرد کردیا ۔اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے
تحفظ و استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں علما، صلحا، صوفیہ
اور اولیا کو منتخب فرماکر ان کے مقامات کو بلند فرمادیا۔ پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء (علما انبیا کے وارث ہیں ) کا
مژدہ سنا کر علما کی عزت و توقیربڑھائی ۔جہاںعلماے اسلام مدارس میں اپنے
درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں گے
وہیں اولیا و صوفیہ اپنی خانقاہوں میں بیٹھ کر بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ
راست پر لانے کے لیے ان کی طہارتِ نفس اور تزکیۂ باطن کا کام انجام دیں گے
۔ یہی وہ دو جماعتیں ہیں جو انسانوں کا رشتہ فانی دنیا سے توڑ کر ہمیشہ
باقی رہنے والی ذات خداے وحدہٗ لاشریک سے جوڑتی ہیں ۔ ان دونوں کا رتبہ
اپنی اپنی جگہ بے حد بلند وبالا ہے ۔
پوری دنیا میں اولیا و صوفیہ نے اسلام کی ترویج و تبلیغ میں جو نمایاں
کردار ادا کیاہے وہ اہلِ فہم پر روشن ہے۔ تبلیغِ دین کے لیے جہاں بادشاہانِ
اسلام اور سپہ سالارانِ اسلام نے اپنی فتوحات کے پرچم بلند کیے وہیں اولیا
ے اسلام نے اپنی روحانی توجہات سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو مسخر کیا ۔ سر
زمینِ ہندوستان پر سلاطین کے ساتھ ساتھ اولیا و صوفیہ اور علما نے دین
اسلام کی تبلیغ واشاعت کی۔ لیکن بادشاہوں کے اندر جب دنیا کی محبت نے گھر
کرنا شروع کردیا تو ان کے اندر نفس پرستی عروج پکڑ گئی جس کے سبب ان کی
زیادہ تر توجہ اپنے ذاتی مفاد کی طرف ہونے لگی ۔ جس سے ان میں خانہ جنگی
شروع ہوگئی اور انھیں زوال شروع ہوگیا ۔ لیکن علماو اولیا نے ایسے دور میں
بھی دین و مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور
بادشاہوں اور امیروں کے دربار سے اپنے آپ کو دوررکھا۔کشورِ ہند میںاسلام
کو جتنی تقویت ان اولیا و صوفیہ سے پہنچی و ہ بادشاہوں اور سلاطین سے نہیں
پہنچی ۔یہ انھیں حضرات کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ برِ صغیر ہندوپاک میں
آباد مسلمانوں کی تعدا د پوری دنیاے اسلام کے مجموعی اعداد و شمار سے کہیں
زیادہ ہے۔
بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنی طاقت کے بل پر ہندوستان کی زمینوں کو تو فتح
کرلیا لیکن اہلِ ہند کے دلوںپر فتح پانے میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے ۔ یہ
کام اولیا و علما نے بہ حسن و خوبی انجام دیا اور اپنے اعلیٰ اَخلاق و
کردار اور بے لوث جذبۂ خدمت و محبت کے سبب ہندوستانیوں کے دلوں کو تسخیر
کرلیا ۔جب یہاں کے مقامی راجا اور نواب اپنی رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ
توڑرہے تھے ایسے ناگفتہ بہ عالم میں اِن علما و اولیا نے اپنی مخلصانہ جدو
جہد سے ان مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے اُن کے دکھ درد کا مداوا کیا اور
انھیں سکون و اطمینان کی لذت سے ہم کنار کیا ۔ ان بے نفس اور پاک باز
ہستیوں کی اخلاص و للہیت سے پُر دعوت و تبلیغ کا یہ حسین و جمیل ثمرہ ہے کہ
آج دنیاے اسلام میں ہندوستان اسلامی روحانیت کا ایک بڑا مرکز کہلاتا ہے ۔
بادشاہوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار تو ان کی نااہلی اور آپسی چپقلش کی
وجہ سے ختم ہوگیا لیکن علما و اولیا کی سلطانی اور حکمرانی آج بھی قائم و
دائم ہے جس کا رنگا رنگ نظارا ہندوستان بھر میں پھیلے ان بزرگوں کو مزارات
و مقابر پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بلالحاظِ مذہب و رنگ و نسل ان حضرات کی
مزارات پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ برصغیر میں کفر و شرک کے
اندھیروں سے اسلام کی روشنی میں لانے والے مبلغین میں سب سے نمایاں ہستی
سلسلۂ چشت کے قد آور بزرگ عطاے رسول ، سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت
معین الدین چشتی حسن سنجری قدس سرہٗ ہیں ۔ جن کی برکت سے راجپوتانہ کی سر
زمین میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے قدومِ میمنت لزوم کی برکتوں سے
ہندوستان پر مسلم حکمرانوں نے اپنی سلطنت قائم کی ۔ حضور خواجہ غریب نواز
قدس سرہٗ کی ذات سے لاکھوں انسانوں نے اسلام کا نورِ یقین حاصل کیا ۔
خواجگانِ چشت اہلِ بہشت نے بھارت کی سرزمین پر شریعت و طریقت، معرفت و
روحانیت ،ولایت و بزرگی،امن و امان ، پیارو محبت،ایثار و قربانی، مروت و
موانست، خلوص و للہیت اورتدبیرِ منزل، سیاستِ مُدن، تہذیب ِاَخلاق اور
یکجہتی و یگانگت کی جو روشنیاں پھیلائیں آج تک اُن کی شعاعوں سے قلوب
واذہان منور و مجلیٰ ہورہے ہیں۔ سلسلۂ چشت اہل بہشت کے عظیم بزرگ حضرت
نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی قدس سرہٗ کی فیض بخش ذاتِ والا مرتبت بلاشبہ
بھارت کے گوناگوں رنگ و نسل اور مذاہب کے مشترکہ کلچرکو اپنے مریدین و
متوسلین کے ذریعہ توحیدو رسالت کے نقوشِ جاوداں سے مطہر و معطرکرنے کاایک
عظیم نظام قائم فرمایا۔ آپ نے ہندوستان کے چپے چپے پر اپنے خلفا اور
مریدین و متوسلین کو روانہ فرمایاجنھوں نے تبلیغِ اسلام کا کام بہ حسن و
خوبی انجام دیا اور اپنے اعلیٰ اَخلاق و کردار اور بے لوث خدمات کے سبب
ہندوستانیوںکے قلوب و اذہان کو مسخر فرمالیا ۔سلسلۂ چشتیہ سے منسلک صوفیہ
و علما نے پورے ملک ہندوستان میں تبلیغ و اشاعتِ دین کا وہ عظیم کارنامہ
انجام دیا جسے تاریخِ اسلام میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پو رے ملک میں جو لوگ ان حضرات کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرتے یہ انھیں تمام
گناہوں سے توبہ کراتے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
فرماں برداری کا عہد لیتے بے حیائی و بداَخلاقی ، ظلم و زیادتی اور لوگوں
کے حقوق کی پامالی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ، حسنِ اَخلاق کی ترغیب دیتے
اور برے اعمال و افعا ل بچنے کی تاکید فرماتے ۔ ذکرِ الٰہی اور تقویٰ و
پرہیزگاری کا درس دیتے ۔ یہ ان ہی پاک باز ہستیوں کی بے لوث اور مخلصانہ
تبلیغ کا اثر ہو اکہ ہندوستانی عوام کے دل ان حضرات کی طرف پھِر گئے اور
انھوں نے اسلام کی آغوش میں آجانے ہی کودنیوی و اخروی نجات کا سبب سمجھا۔
خواجگانِ چشت نے اپنی گفتار و کردار سے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کا
گہرا اثر ہندوستانی تہذیب و تمدن ، افکار و خیالات ، علم و ادب ، شعرو سخن
غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ پر پڑا جس کے آثار اور خد وخال آج بھی نمایاں
طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔آج پورے ملک میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا جو نظام
قائم ہے اُس کے سرخیل سلسلۂ چشت کے اہم بزرگ حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ
الٰہی قدس سرہٗ کی ذاتِ بابرکات ہے ۔ آپ کے مریدین و متوسلین کی مساعیِ
جمیلہ سے اسلام ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلا۔ آج چاروں طرف سلسلۂ چشت
اہلِ بہشت کے بزرگوں کے مزارات و مقابر زیارت گاہِ خلائق ہیں۔
اولیاے کرام کے مریدین و متوسلین نے اپنے اکابر کے حالاتِ زندگی کو یکجا
کرتے ہوئے انھیں تذکروں کے نام سے شائع کروانا شروع کیا ، جس کے بیشمار
فوائد دیکھنے کو ملے ۔اُن مقدس ہستیوں کے رُخِ حیات کی گوناگوں جھلکیوں کے
مطالعہ سے انسانوں کے اندر انقلاب پیدا ہوئے اور اُن حضرات کی اعلیٰ سیرت
کی مدد سے ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں مدد ملی۔ تذکرہ نگاری کو محققین نے
تاریخ کا قائم مقام تسلیم کیا ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ تذکرہ نگاری کی
روایت خالص ہندوستانی ہے۔ سب سے پہلے شعرا کے حالات میں جو تذکرہ لکھا گیا
وہ سرزمین ملتان میں ’’لباب الالباب ‘‘کے نام سے عوفی نے لکھا اس کے بعد یہ
روایت آیندہ زمانے میں ایران سے زیادہ ہندوستان میں برقرار رہی اور مغلیہ
دور میں فارسی میں کچھ اہم تذکرے لکھے گئے۔یہی وجہ ہے کہ فارسی میں بہت
سارے تذکرے ملتے ہیں ۔ فارسی کے شانہ بہ شانہ جب ریختہ نے اردو کا نام پایا
تو اردو زبان میں بھی تذکرہ نگاری کی روایت آگے بڑھی ۔اس دور میں شعرا کے
حالات لکھنا کچھ ایسا دستور ہوگیا تھا کہ مصنفین تاریخی کتابوں میں ایک حصہ
شعرا کے تذکرے کے لیے مخصوص کردیا کرتے تھے۔ چناں چہ ’’ طبقاتِ اکبری‘‘ اور
’’منتخب التواریخ‘‘ وغیرہ میں اُس عہد کے معاصر شعرا کے حالات و کوائف ملتے
ہیں۔ تاریخ کے علاوہ دوسرے فنون پر کتابیں بھی بہ حیثیتِ تذکرہ اہمیت رکھتی
ہیںاور ان میں ’’ہفت اقلیم‘‘ کانام سر فہرست ہے۔ آخری مغل دور میں بھی
تذکرہ نگاری کی روایت برقرار رہی اور اس عہد میں بھی آرزوؔ اور خوشگو ؔ
جیسے تذکرہ نگار ملتے ہیں ۔ جن کی روایت پر ہندوستان اور ایران ہر جگہ
بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اردو ادب کی ابتدا فارسی کے علما اور شعرا نے کی اور
اردو تذکرہ نگاری بھی فارسی تذکرہ نویسوں نے شروع کی یا اُن کے پیروکاروں
نے اس فن کو فروغ دیا۔ چناں چہ مغلیہ عہد کے آخری زمانے میں ہمیں ایسے
تذکرے ملتے ہیں جن میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے شاعروں کے حالات
موجود ہیں ۔ادبا و محققین نے تذکرہ نگاری کو باضابطہ ایک فن اور صنف کے طور
پر برتتے ہوئے کامیاب تذکرے قلم بند کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں فارسی ،
اردو اور دیگر زبانوں میں مختلف شعبہ ہاے حیات میں نمایاں کارنامے انجام
دینے والوں کے تذکرے خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔ تذکرہ نگاری کے آغاز، عروج
و ارتقا، روایت کے تسلسل اوراس کے تنقیدی رجحانات پر روشنی ڈالنا ایک طویل
مقالے کا متقاضی ہے۔ یہاں بس یہ بتانا مقصو د ہے کہ تذکرہ نگاری تاریخ کا
ہی ایک حصہ ہے اور یہ ایک فن بھی ہے ۔ جس کی مدد سے ہم مختلف شخصیات کی
حیات اور کارناموں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
ہندوستان میں سلسلۂ چشت کے علما و مشائخ اور صوفیہ کی ہر دور میں خاصی
تعداد رہی ہے۔اکثر محققین و مصنفین نے مختلف زمانی تقسیم کے تحت عہد بہ عہد
سلسلۂ چشت کے بزرگوں کے تذکروں کو مرتب کیا ہے۔ سرزمین ہند میںسلسلۂ چشت
کی وسعت و مقبولیت کے لحاظ سے بھی مشائخ چشت کے تذکرے فارسی اور اردو میں
نمایاں طورپر اچھی خاصی تعداد میں ملتے ہیں۔ سلسلۂ چشت کا کاررواں جب
ہندوستان میں چاروں طرف پھلنے پھولنے لگا تو اُس کی کئی خوش نما شاخیں وجود
میں آئیں۔ جن میں سے ایک شاخ ’’سلسلۂ چشتیہ نظامیہ فخریہ سبحانیہ نذیریہ
سلطانیہ‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے، جس کے اجداد میں ایک بزرگ نواب حضرت
خواجہ میر سید حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ سلطان محمود غزنوی کے سپہ سالار
تھے جوغزنوی فوج کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے ۔ انھیں کی آل میں سے ایک
پاک باز بزرگ حضرت خواجہ قاضی سید کمال الدین محمود چشتی علیہ الرحمہ ہوئے
، جو سلسلۂ چشت کی اِس نورانی کڑی کے کے ’’مورثِ اعلیٰ‘‘ کہلائے ، جنھوں
نے اپنا مسکن دیویٰ شریف کو بنایا۔ حضرت قاضی سید کمال الدین محمود چشتی
رحمۃ اللہ علیہ کی نسل سے جو لعل و جواہرہوئے انھیں بزرگوں پر مشتمل نورانی
قافلے کو ’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ ‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ’’سلسلۂ
چشتیہ نظامیہ فخریہ سبحانیہ نذیریہ سلطانیہ‘‘ کے نام سے یاد کی جانے والی
سلسلۂ چشت کی اس اہم کڑی کے اکابر میں حضرت خواجہ مولانا سبحان علی چشتی
قادری نقش بندی سہروردی قدس سرہٗ (ٹانڈہ) کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ
سبحان علی چشتی قادری قدس سرہٗ سے جاری اس سلسلۃ الذہب کے امین کی حیثیت سے
اِس وقت پیر طریقت حضرت مولانا سید محمد فاروق میاں چشتی قادری مصباحی دام
ظلہٗ کی ذاتِ بابرکات ہے ، جو شریعت و طریقت دونوں کا حسین و جمیل سنگم ہے۔
آپ مسندِ رشد و ہدایت اور ’’سلسلۂ چشتیہ نظامیہ فخریہ سبحانیہ نذیریہ
سلطانیہ‘‘ کی روحانی امانتوں کے وارث اور محافظ ہیں ۔ اللہ کریم ان کے سایۂ
عاطفت کو بالخصوص اہلِ سلسلہ اور بالعموم دنیاے سنیت پر دراز تر فرمائے ۔آمین!!
پیشِ نظر کتاب ’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ‘‘ جناب ڈاکٹر جاوید احمد چشتی کی ایک
بہترین کاوش ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عصری تعلیم کے میدان میں بی۔اے ، ڈی ایم ایل
ٹی ، ایم بی ای ایچ اور ہومیوپیتھی میں ایم ڈی کیا ہے۔ طب و حکمت آپ کا
ذریعۂ معاش ہے۔ موصوف ایک کثیر المطالعہ شخص ہیں۔ ان کے مشاغل میںمذہب اور
ادب پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا نمایاں طور پر شامل ہے۔ خصوصیت کے ساتھ
آپ کو تصوف اور اولیا و صوفیہ کے تذکروں کے مطالعہ سے بے حد لگاؤ
ہے۔مقالہ نگاری اور اولیاے کرام کے حالات و واقعات پر مبنی مضامین اوران کی
تحریر کردہ مناقبِ اولیا اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اکابر
اولیا و صوفیہ سے محبت و الفت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
خصوصاً اپنے سلسلے کے بزرگوں کے تئیں اُن کے اندربے پناہ عشق پایا جاتا ہے۔
ان بزرگوں کے اعراس کی تاریخوں میں اکثر اُن کی مناقب یا اُن کے حالات پر
مختصر تعارفی تحریر اخبارات میں شائع کرواتے رہتے ہیں۔ کئی سال قبل راقم نے
اُن کے اسی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا تھاکہ کیا ہی بہتر ہوگا کہ
آپ اپنے’’ سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ ‘‘کے جملہ مشائخ کے تذکرۂ خیر پر مشتمل
ایک کتاب تالیف کریں۔ چناں چہ موصوف نے اپنے مرشدِ گرامی پیر طریقت حضرت
مولانا محمد فاروق چشتی قادری صاحب قبلہ دام ظلہٗ العالی کی دعاؤں کے سایہ
میں اس کام کو شروع کیا اور بہ حُسن و خوبی انجام تک پہنچانے میں کامیابی
حاصل کی۔
زیرِ تذکرہ تالیف ’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ‘‘ میںڈاکٹر جاوید احمد چشتی نے
حضور سید عالم، رحمۃ للعالمین ، ختمی مرتبت مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وصحبہٖ وسلم سے لے کرپیر طریقت حضرت اقدس سید محمد فاروق میاں
چشتی قادری مصباحی صاحب قبلہ دام ظلہٗ کے تذکارِ خیر کو قلم بند کیاہے۔اس
کتاب کو دو ابواب میں منقسم کیا ہے۔ سب سے پہلے مقدمہ قلم بند کرتے ہوئے اس
میں اولیا ے کرام کی کرامات اور ان کے تصرفات کا ثبوت قرآنِ کریم کی آیاتِ
کریمہ اور فرامینِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اجماع امت کے علاوہ
اکابر اولیاے کرام کے اقوال سے ثابت کیا ہے۔پہلے باب میں سلسلۂ عالیہ
چشتیہ نظامیہ فخریہ سبحانیہ نذیریہ سلطانیہ کی ایک شاخ کے ۳۹؍ بزرگانِ کرام
کا ذکرِ جمیل اُن کی حیاتِ مقدسہ کے حالات ، سیر و سیاحت کے واقعات و قصص،
خدمات اور کارنامے، عبادت و ریاضت ،مجاہدات و مکاشفات، ارشادات و مواعظ،
کرامات،و خوارقِ عادات، مریدین کے لیے پیش کردہ ہدایات و احکام ، ملفوظات و
اعتقادات ، حُسنِ سیرت و اخلاق وغیرہ کوبہترین انداز میں پیش کیاہے۔ دوسرے
باب میں سلسلۂ چشت میں معروف و مقبول ختم خواجگان کی تفصیل اور اس کے
پڑھنے کے طریقہ کی وضاحت کی ہے۔سلسلۂ چشتیہ نظامیہ فخریہ سلطانیہ اورسلسلۂ
قادریہ فخریہ سلطانیہ کے منظوم و منثور شجرے، نیز سلامِ سلسلۂ چشتیہ
سلطانیہ ،مناجات اور خواجگان پنج حضرت خواجہ با یزید بسطامی ، حضرت خواجہ
ابوالحسن خرقانی ، حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی ، حضرت خواجہ عبدالخالق
غجدوانی اور حضرت خواجہ بہاء الدین نقش بندی علیہم الرحمۃ والرضوان کے رخِ
حیات کی تابندہ جھلکیاں خوانِ مطالعہ پر سجائی ہیں ۔
اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں سلسلۂ چشت اہلِ بہشت کے مشائخ کرام کے حالات و
کوائف کے علاوہ اُن حضراتِ قدسی صفات کی علمی و روحانی مساعیِ جمیلہ کا
عرفان بھی ہوگا ۔ آج کے مادہ پرستانہ ماحول میںہر انسان نفس پرستی ، ہوس
رانی اور بے راہ روی کا شکارہے ایسے عالم میں روحانی اقدار کی بے حد ضرورت
ہے۔ اِن پاک باز بزرگانِ دین کے حالاتِ زندگی اور اُن کی تعلیمات کے مطالعہ
سے ہم ایک صالح اور اچھے معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ آج جامعات ، مدارس
اور علم و فن کی کثرت کے باوجود انسان کا انسان بننا مشکل ہوتا جارہا ہے ،
ایسے میں اِن پاک طینت ، شریف النفس اور مخلص بندگانِ خدا کے تذکارِ خیر کو
پڑھ کر ہم اپنے سماج اور معاشرے میں اعلیٰ روحانی اقدار کو پروان چڑھاسکتے
ہیں۔
میں جناب ڈاکٹر جاوید احمد چشتی کو ’’سلسلۂ چشتیہ سلطانیہ‘‘ کے مشائخِ
کرام کے تذکارِ خیر پر مبنی اِس بہترین اور عمدہ کارنامے پر ہدیۂ تبریک
وتہنیت پیش کرتا ہوں اور دعا گوہوں کہ اللہ رب العزت انھیں اِن مشائخ کے
صدقہ و طفیل دین و دنیا کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے اور اِس کتاب کو اُن کے
لیے توشۂ آخرت بنائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ وسلم !!
۲۵؍ ذوالقعدہ ۱۴۳۷ھ/ ۲۹؍ اگست ۲۰۱۶ء، بروز پیر |
|