بڑے میاں،بڑے میاں !اٹھیں :آپ کو کیا
ہوا،آنکھیں کھولیں،میں ابراہیم ہوں،آپ کا ٹائیگر بیٹا۔ننھا ابراہیم اپنے
دادا کو مسلسل جھنجھوڑے جا رہا تھا اور ساتھ ہی لگا تار آنسو بھی بہائے جا
رہا تھا،جب وہ رو رو کر تھک گیااور بڑے میاں کو پھر بھی ہوش نہ آیاتو اس نے
اپنا جوتا پہنا اور دوڑا دوڑا لان کی طرف چلا گیا،ساتھ ہی وہ اونچی اونچی
آواز میں کہہ رہا تھا ،امی جان،ابو جان کدھر ہیں آپ؟
ڈاکٹر افتخار اور ان کی بیوی ڈاکٹر جویریہ لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے
اور ساتھ ہی امریکہ شفٹ ہونے کے متعلق ڈسکس کر رہے تھے۔جویریہ کہنے
لگی:افتخار!آخر کب تک ہم یہاں ان دھماکوں ،چوریوں اور ڈکیتوں کا سامنا کرتے
رہیں گے؟اب تو مجھے ان مریضوں سے بھی بڑا ڈر لگتا ہے کیسے گندے گندے اور
بدبو دار کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور ان کے پا س دوا دارو کے لیے پیسے بھی نہیں
ہوتے،ایسے مسکینوں سا منہ بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں جیسے میں ابھی ان پر ترس
کھالوں گی حالانکہ مجھے تو ان سے گھن آتی ہے لیکن کیا کروں گھر بار چلانے
کے لیے ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں تو آپ کو روزوشب کہتی رہتی ہوں کہ چھوڑیں اس غریب ،پسماندہ اور
دہشتگردوں کے ملک کو ،امریکہ چلتے ہیں، وہاں اپنی مرضی کا بزنس کریں گے اور
خوب دولت اکھٹی کریں گے۔
ڈاکٹر افتخار کہنے لگے۔دیکھو جویریہ مجھے بھی یہاں رہنے کا کوئی شوق نہیں
اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ ابراہیم کی پرورش اس گندے اور گھٹن زدہ
ماحول میں ہو،لیکن کیا کروں،ابا جان کو ایسی حالت میں چھوڑا نہیں جاسکتا،تم
تو جانتی ہو نا ان کی پاکستان سے محبت……!
حالانکہ پاکستان نے ان کو صرف اور صرف درد دیا ہے۔اورپھر بھی وہ دن رات اسی
کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عنقریب پاکستان بنے گا،اب پتا
نہیں ان کے لیے کون بنائے گاپاکستان،اور کون سا پاکستان بنے گا؟میں ان کو
ساتھ بھی نہیں لے جا سکتا ،کیونکہ ایک تو تم نہیں مانتی اور دوسراوہ
مرجائیں گے لیکن اس ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو چھوڑیں گے نہیں۔
اتنے میں ان کے کانوں میں ابراہیم کی دھیمی دھیمی آواز پڑی جو ان کو پکار
رہا تھا،یہ دونوں اس کی طرف لپکے اور پوچھا کیا ہوا؟ابراہیم روتے ہوئے
بتانے لگا کہ بڑے میاں میرے ساتھ بات نہیں کر رہے اور نہ آنکھیں کھول رہے
ہیں۔لو جی پھر سے حب الوطنی کا دورہ پڑگیا ہے میاں جی کو۔جویریہ نے ماتھے
پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے کہا۔ابراہیم نے ماں کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے
اپنے باپ کی انگلی پکڑی اور اس طرف چل دیا جہاں پر بڑے میاں اوندھے منہ گرے
پڑے تھے۔ڈاکٹر افتخار نے جب اپنے باپ کو اس حالت میں گرا دیکھا تو ان کا دل
کھنچ گیاانہوں نے جلدی سے باپ کو سیدھا کیا اور منہ پر پانی کے چھینٹے
مارنے لگے،بڑے میاں کو ہلکا ہلکا ہوش آرہا تھا لیکن ان کی زبان پر مسلسل
یہی جملہ تھا:’’عنقریب پاکستان بنے گا ،عنقریب پاکستان بنے گا ۔‘‘
’’اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں ہیں بلکہ در حقیقت وہ دو مختلف
معاشرتی نظام ہیں،چنا نچہ اس خواہش کو خواب وخیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو
اور مسلمان مل کر مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے،میں واشگاف الفاظ میں کہتا
ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد
ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔‘‘
ٹی وی پر اینکر پرسن بڑے احسن انداز سے 23مارچ 1940ء کو کی گئی قائداعظم کی
تقر یر بیان کر رہا تھا۔تب ہی ڈاکٹر افتخار نے اچانک مڑکر ٹی وی کی طرف
دیکھا تو ان کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا اور ان کو یاد آیا کہ آج
تو23مارچ ہے اسی لیے ابا جان کی یہ حالت ہے اوراسی دن ان کی حالت ایسی کیوں
ہوتی ہے وہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
وہ یہ معمہ کبھی نہ حل کر پاتے اگر وہ ابراہیم اور میاں جی کے درمیان ہونے
والی گفتگو نہ سن لیتے۔اس دن بھی ڈاکٹر افتخار اور ان کی بیوی پاکستان کے
نظام اور اس کی معیشت کو خوب برا بھلا کہہ رہے تھے جب ڈاکٹر افتخار کو
اچانک کوئی کام یاد آیا اور وہ ڈائننگ روم کی طرف چل دئیے ۔ میاں جی کا
کمرہ کراس کرکے وہ آگے گئے لیکن مدھم مدھم آواز سن کر دوبار ہ واپس پلٹے
اور دروازے کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔دادا پوتا گپ شپ میں مصروف تھے ۔ابراہیم
بولا:لیکن بڑے میاں آپ صرف23مارچ کو ہی کیوں بیمار ہوتے ہیں جبکہ سارا سال
آپ کی صحت اچھی رہتی ہے اور آپ مجھے ہنساتے رہتے ہیں۔بڑے میاں جوکے پہلے
ہنس رہے تھے اچانک خاموش ہوگئے اور ان کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ بہت
پیچھے کہیں ماضی کی درد بھری یادوں میں کھوگئے ہیں۔پھر اچانک وہ سیدھے ہو
کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے بیٹا یہ 2فروری 1940 کی بات ہے جب میں صرف 15سال
کا تھااور جوانی کی لذتوں سے ابھی نا آشنا تھا۔ہمارا گھر امرتسر کے ایک
کشادہ محلے میں تھا۔
ہمارے محلے میں صرف دو گھرمسلمانوں کے تھے اور باقی سب سکھ اورہندوؤ ں کے
تھے مجھے محلے کے چند لڑکوں سے معلوم ہو اکہ مسلم لیگ جو کہ قائداعظم کی
جماعت ہے وہ کسی الگ ملک کامطالبہ کر رہی ہے یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوا
اور کہنے لگا یہ تو بڑی اچھی بات ہے کم از کم ہم مسلمان سُکھ کا سانس تو لے
سکیں گے۔میری یہ بات ان کو اچھی نہ لگی اور انہوں نے مجھے دھمکیاں دیں اور
مجھے اس طرح کی باتوں سے باز رہنے کو کہا۔دن گزرتے گئے تب مجھے پتا چلا کہ
23مارچ1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کی زیر قیادت ایک بہت بڑا جلسہ ہو رہا
ہے جس میں قائداعظم کے علاوہ دوسرے بڑے بڑے قائدین بھی آئیں گے۔23مارچ کا
دن آیا تومیں گھر والوں سے چُھپتا چھپاتا لاہور آگیا اور جلسے میں شرکت
کی۔اس میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی جن میں جوانی کا نشہ اور الگ
ملک کی خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔بڑے میاں نے ایک لمحہ کے لیے سانس
لیا اور پھر ابراہیم کو پیار سے چمکارتے ہوئے کہا:’’بیٹا اس دن ہم میں جو
جوش تھا وہ آج کل کے نوجوانوں میں نظر نہیں آتا،یہ تو کاہل،سست اور ڈرپوک
ہیں ۔ ان کو گھر میں بیٹھ کر کھانے کو مل جاتا ہے اس لیے ان کو آزادی کی
قیمت کا کوئی احساس نہیں ہے بس فارغ بیٹھ کر اپنی دھرتی ماں کو گالیاں بکتے
رہتے ہیں اور ناشکری کرتے ہیں،محمد علی جناحؒ نے بڑے اعلیٰ اور دلکش انداز
سے ہمیں اس بات کے لیے قائل کیا کہ ہم پاکستان کی آزادی کے لیے دل و جان
ایک کردیں لیکن کہتے ہیں کہ انسان جو سوچتا ہے وہ نہیں ہوتا بلکہ خدا جو
چاہتا ہے وہی ہوتاہے۔ میں جب گھر واپس آیا تو بہت خوش تھا اور دل ہی دل میں
اپنے پاکستان کے سپنے دیکھنے لگا تھا۔‘‘لیکن کہتے ہیں کہ انسان جوسوچتاہے
وہ نہیں ہوتابلکہ خداجوچاہتاہے وہی ہوتا ہے۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں گھر کی بالائی چھت سے نیچے گر گیا جس سے میری
کمر کی ہڈی اور دائیں ٹانگ ٹوٹ گئی۔میں مسلسل پانچ ،چھ سال تک بستر کا ہو
کر رہ گیا،اسی دوران آزادیٔ پاکستان کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور ہندو
ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہمیں مارنے لگے۔
میں نے ابھی آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا تھا لیکن بھاگ دوڑ نہیں سکتا
تھا،ایک دن میری ماں،میری چھوٹی بہن اور تمہاری دادی ،(ابھی ہمارا صرف نکاح
ہوا تھا)صحن میں بیٹھے تھے کہ یکایک بلوائیوں نے ہمارے گھرپرحملہ کردیا
میری بیوی اند رکمرے میں جا کر چھپ گئی جبکہ ہمیں چھپنے کا موقع ہی نہیں
ملا۔ان ظالموں نے میرے سامنے میری ماں کو قتل کیا اور میری چھوٹی بہن کی
عزت تار تارکی،اور مجھے ڈنڈوں سوٹوں سے آدھ موا کرکے پھینک گئے۔انہوں نے
گھر کی تلاشی بھی لی لیکن ان کو کچھ نہ ملاکیونکہ میری بیوی نے خود کو آٹے
والی مٹی میں چھپا لیا تھا۔
اس طرح ہم بڑے مشکل حالات میں پاکستان پہنچے ،ایک طرف مجھے اس بات کا غم
تھا کہ میں نے سب کچھ کھو دیا ،لیکن دوسری طرف مجھے اس بات کی خوشی بھی تھی
کہ پاکستان کی صورت میں ،مَیں نے سب کچھ پالیا۔پاکستان میرے خوابوں کی سر
زمین تھی اور اس دن میرے خوابوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا۔یہاں آکر میں
نے اپنا علاج کر وایا اور پھر چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا25,20سال تک خوب
محنت کر کے تمہارے ابا کو ڈاکٹر بنایامجھے میری محنت کا پھل اور خوابوں کی
جنت مل گئی تھی،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سب کچھ بدلنے لگا
، لوگ ایک دوسرے کودھوکا دینے لگے،رشوت،فراڈ،سفارش عام ہوگئی،قوانین کی
دھجیاں اڑائی جانے لگیں۔غرض ہر وہ برا کام جو میں نے ہندوستان میں رہتے
ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا یہاں موجود ہے،لیکن ان سب کے باوجود بھی مجھے اس
سے پیار ہے اور یہ میری رگوں میں دوڑتا ہے،میرے دل میں بستا ہے اور میرے
دماغ میں صرف اسی کا نقش ہے۔
اب میں جب بھی ٹی وی پر یوم پاکستان کے حوالے سے کوئی پروگرام دیکھتایا
سنتا ہوں تو میری پرانی درد سے بھری ،دل کو درد دینے والی یادیں پھرتازہ ہو
جاتی ہیں،میں خود پر قابو نہیں پاسکتااور بے ہوش ہو جاتا ہوں ۔
میرا افتخاراس کے لیے کچھ نہیں کر سکا تو کیا ہوا،مجھے امیدہے کہ میرا
ابراہیم اس کے لیے ضرور اپنی جان تک قربان کر دے گااور اس کو پاک پاکستان
بنائے گا۔(ان شاء اﷲ)
ابراہیم نے بڑے میاں کے گال کو چوم لیا اور ننھے ننھے ہاتھوں سے ان کے آنسو
صاف کرتے ہوئے کہنے لگا:’’بڑے میاں میں ضرور آپ کو آپ کا پاکستان لوٹاؤں
گا۔‘‘
ڈاکٹر افتخار بڑے میاں اور ابراہیم کی باتیں سن کر اپنے جذبات پرقابو نہ
پاسکے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے،پھر جلدی جلدی جویریہ کے پاس گئے اور کہا
کہ ہم یہیں پر رہیں گے،امریکا نہیں جائیں گے،’’کیونکہ جنت کو چھوڑ کر کوئی
بے وقوف ہی جہنم کی طرف جائے گا‘‘۔اور دور کہیں سے آواز آرہی تھی کہ میری
یادوں کا درد پاکستان سے جڑا ہے اور اس درد کی دوا بھی پاکستان میں ہے۔ |