ضمیر
(Tughral Farghan, Hyderabad)
آفس کے دروازے پر دستک ہوئی۔
’’ یس کم ان ‘‘
چپڑاسی پریشان چہرے کے ساتھ آفس میں داخل ہوا اور ایک کاغذ سیٹھ حامد کی
طرف بڑھا یا۔
سیٹھ ذرا غصے سے ’’کیا ہے یہ؟ ‘‘
چپڑاسی ہکلاتے ہوئے ’’ سر پچیس ہزار ایڈوانس چاہئیں ‘‘
’’ کیوں‘‘
’’ ماں کی آنکھوں کا آپریشن ہے سر ‘‘
سیٹھ تیوری پر بل ڈال کر چلاتے ہوئے ’’میں نے کوئی خیرات خانہ کھول رکھا
ہے؟ چلو بھاگویہاں سے میرے پاس کچھ نہیں ہے جب دیکھو مانگنے آ جاتے ہیں ‘‘
چپڑاسی نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ اٹھایا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے سیٹھ کو
دیکھ کر باہر نکل گیا۔
باس نے ٹی وی آن کیا، وہاں ایک ٹیلیتھون چل رہا تھا جس میں اس کی پسندیدہ
ہیروئن کترینہ کیف کسی ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کر رہی تھی۔لوگ کال کر کے
چندے کا اعلان کر رہے تھے۔
سیٹھ حامد نے فون ملایا۔ ’’ہیلو کترینہ جی میں ۔۔۔۔۔۔ انڈسٹریز کا مالک
سیٹھ حامد بول رہا ہوں میری طرف سے ایک ملین لکھ لیجیے ‘‘
اسٹوڈیو میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی سب واہ واہ کرنے لگے اینکر نے کترینہ
کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔
تو وہ ذرا نازو انداز سے بولی ’’ واہ سیٹھ جی آپ اتنی بڑی شخصیت ہیں اتنے
بڑے کاروبار کے مالک اور صرف ایک ملین ارے کچھ میرا ہی خیال کر لیجیے ،میں
یہاں ہوں اور آپ سے ریکویسٹ کر رہی ہوں، کیا خیال ہے دو ملین لکھ لوں؟ ‘‘
’’ وہ بات یہ ہے کہ‘‘
مخمور آواز میں ’’ سیٹھ صاحب میری خاطر ‘‘
’’اب آپ نے اتنی بڑی بات کہہ دی اور آپ کی بات ٹال تو نہیں سکتے نا، چلیں
دو ملین ڈن‘‘
ایک بار پھر اسٹوڈیو میں نعرے بلند ہوئے سیٹھ حامد کی سخاوت و غریب پروری
کا ذکر کیا گیا ،ان کے قصے دہرائے گئے۔
سیٹھ حامدنے فون رکھ کر کرسی پر بدن ڈھیلا چھوڑ دیا نظریں اب بھی اسکرین پر
جمی ہوئی تھیں۔
باہر چپڑاسی کرسی پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا اور سوچ رہا تھا اب کیا کروں
یہ سب کیسے ہو گا۔
اندر سیٹھ حامد کرسی پر جھول رہا تھا ذہن میں کترینہ کے کہے جملے گھوم رہے
تھے۔
اللہ کے نام پر پچیس ہزار نہ دے کراور کترینہ کے نام پربیس لاکھ دے کراس کا
ضمیر بہت مطمئن تھا۔ |
|