مشرقی پاکستان یقینابھارت کی کھلی مداخلت
بلکہ فوج کشی کے بغیر الگ نہ ہوسکتاتھا لیکن بہرحال اس کی علیحدگی کی
دیگربہت ساری وجوہات و اسباب کے علاوہ ایک بڑی وجہ ’’اپنوں‘‘کاغلط طرزِ عمل
بھی تھااور یہ غلط طرزعمل صرف یہ نہیں کہ بنگالیوں کادانستہ و نادانستہ
استحصال تھا ‘بلکہ اصل وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے بہت سے بقراطِ وقت اور
افلاطونِ عصر اسے ایک بوجھ سمجھتے اور کہتے نہ تھکتے تھے۔جو لوگ پاکستان
بنانے کے لیے بغیر کسی قربانی کے راتوں رات ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن
بیٹھے تھے……
’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ کے مصداق انہی لوگوں کے ہاتھوں میں
پاکستان کی تقدیر کے تمام فیصلے آگئے۔یہ لوگ کبھی تو کہتے کہ مشرقی پاکستان
کو پال کر ہم نے کیاکرنا ہے۔ 1000میل کے فاصلے پر واقع ایک حصے کو دوسرے
حصے سے کیسے چلانا ممکن ہے۔ جب انسان عزم‘ ہمت اور ارادہ و جذبہ کو ختم
کربیٹھے تو پھرایک تنکا توڑنا بھی مشکل ہوجاتاہے‘عزم و جذبہ بھرپور ہو تو
پھر بڑے بڑے پہاڑ بھی راستے کی رکاوٹ نہیں بنتے۔ انگلینڈ‘ فرانس جیسے ملکوں
نے پانچ پانچ‘دس دس ہزار میل کے فاصلوں پر واقع اپنے مقبوضہ ملکوں پر
حکومتیں کیں۔
ہمارا یہی ملک ہندوستان ‘برطانیہ سے6707 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع تھالیکن
اتنے فاصلے پر ہونے کے باوجود برطانیہ نے ہندوستان پر 200سال تک کامیابی سے
حکومت کی اور صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیاکے ایک بڑے حصے پر حکومت
کی۔ہمارے یہ افلاطون اگربرطانوی حکمرانوں کے پاس ہوتے تو برطانیہ ایک میل
بھی اپنے ملک سے باہر کہیں حکومت کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ ویسے غیروں کی مثال
کیادینی ہے‘ وہ توصرف اس لیے دی ہے کہ ہم اپنوں کی بات کو کم ہی مانتے اور
تسلیم کرتے ہیں ورنہ تو ہمارے لیے فاروق اعظم حضرت عمرt کی مثال ہی کافی ہے
جنہوں نے مدینہ میں بیٹھ کر دنیا کے 22لاکھ مربع میل علاقے پر حکومت کی
لیکن ہمارے سقراطوں اور بقراطوں کو ایسی مثالوں سے کیاغرض۔انہوں نے تواپنے
ہرمسئلے کا ایک ہی کافی وشافی اور تیز بہدف حل تجویز بلکہ فائنل کر کے
رکھاہوا ہے کہ جو بھی مسئلہ پیداہو یا جو بھی چیز مسئلہ پیدا کرے ‘اس چیز
سے ہی جان چھڑالو۔مسئلے کے حل کی کوئی کوشش نہ کرو۔ بس مسئلے سے ہی جان
چھڑاؤ اور سکھی و شانت ہو جاؤ۔کوئی مریض اگر تھوڑے سے علاج معالجے سے صحیح
نہیں ہو تو مریض سے ہی جان چھڑاؤ۔اسے کوئی زہریلا انجکشن دے دو یا کسی اور
طرح سے اس کا گلا وغیرہ دبا کر مسئلے سے فوری نجات پاؤ۔
مسائل حل کرنے کا یہ آسان اور سستا نسخہ ہم کب سے چلا رہے ہیں۔اس کی دلیل
ہمارے بقراط یہ بھی دیتے ہیں کہ کشتی میں اگر بوجھ زیادہ ہو جائے تو وہ
فالتو بوجھ اٹھاکر سمندر میں پھینک دیاجاتاہے تاکہ باقی کشتی بچ
جائے۔چنانچہ اس فارمولے کے تحت مشرقی پاکستان سے نجات حاصل کی گئی اور
سوچاگیا کہ یہ اگر ہماری جان چھوڑ دے توباقی پاکستان پورے سکون وامن سے
ترقی کی منزلیں درمنزلیں طے کرتاجائے گااور ہم اس طرح شاید اوج ثریا تک
جاپہنچیں گے اور بھارت کے ساتھ ہماری روز روز کی جنگیں بھی ختم ہوجائیں گی
لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔آدھا پاکستان کھاکربھی بھارت کو
سکون نہ آیا اور وہ باقی پاکستان کو بھی ہڑپ کرنے کے لیے مسلسل اپنی سازشوں
اور شرارتوں میں مشغول ہے۔
اس سے پہلے بھارت کو پاکستان کے تین دریا بیچ کر بھی یہی سمجھ لیاگیا کہ
بھارت کے ساتھ یہ روز روز کا پانی کا جھگڑا اس طرح ختم ہوجائے گا لیکن دنیا
نے دیکھا کہ یہ جھگڑا آج پہلے سے بھی زیادہ موجود ہے اور بھارت ہمارے باقی
دریاؤں پر بھی درجنوں ڈیم بناکر پاکستان کو صحرابنانے کے شیطانی مشن پر
پوری طرح کاربندہے۔ ہم نے پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دے کر بحمدﷲ ناقابل
نسخہ بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی یہی سلوک
کیا۔
اب مسئلہ کشمیر کشمیری بھائیوں اور کشمیری مجاہدوں کی مسلسل قربانیوں سے
گرم ہوااور پوری دنیا میں ہائی لائٹ ہوا تو بجائے اس کے کہ ہم ان کی
قربانیوں کی قدرکرتے کیونکہ وہ جوکچھ کر رہے ہیں‘پاکستان کی بقاء کے لیے کر
رہے ہیں‘اس کی بجائے بھارت نے جونہی ہمیں تھوڑی سی جنگ کی دھمکی لگائی تو
ہمارے ان بقراطوں اور لال بجھکڑوں کے پھر ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ آرمی چیف کی
جرأت مندانہ للکار اور بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے سے ہندولالہ
توآخر اپنی اوقات پرآگیا اور وہ جنگ کی دھمکیوں سے تائب ہو کر غربت کے خلاف
جنگ کی باتیں کرنے لگ گیا لیکن ہمارے ’’عقلمندوں‘‘ کو اب فکر لاحق ہوئی کہ
ابھی وقتی طورپر توجنگ ٹل گئی ہے لیکن یہ مصیبت پھر بھی گلے پڑسکتی
ہے۔چنانچہ انہوں نے فوری طورپر اپنی پٹاری سے پھر وہی پرانا نسخہ نکالا کہ
پہلے وہ مسئلہ تلاش کرو جو پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ پیدا کر رہا ہے اور
پھر اس مسئلہ کو ہی اگر ختم کردو توپھر ہم دشمن سے ہمیشہ کے لیے محفوظ و
مامون ہو جائیں گے۔چنانچہ آخرتلاش بسیار کے بعدانہیں وہ چیز نظرآ ہی گئی جو
انہیں مسئلہ پیدا کرتی محسوس ہورہی تھی۔انہوں نے دشمن کے مطالبوں کا
سنجیدگی سے جائزہ لیاتومعلوم ہوا کہ ہمارا دشمن ایک چیز کا باربار مطالبہ
کر رہاہے اور عالمی طورپربھی ہر جگہ اس مسئلے پربات ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر
کو اٹھانے اور گرمانے والے پروفیسرحافظ محمدسعید کو اگر کسی طرح سائیڈلائن
کر دیا جائے‘کشتی کا یہ بوجھ بھی اگر اتار دیاجائے توپھر دیکھئے پاکستان
بھارت راتوں رات کس طرح شیروشکر ہو جاتے ہیں اور بھارت نہ صرف آئندہ کے لیے
باقی پاکستان کو ہمیشہ کے لیے بخش دے گابلکہ کشمیربھی ہماری نئی پرامن روش
سے متاثر ہو کر پلیٹ میں رکھ کر پیش کردے گا۔چنانچہ اب وہ حافظ سعید کے
بارے میں بھی یہی راگ الاپنے لگے کہ انہیں پال کرکیاکرناہے؟
ان’’ عقلمندوں‘‘ سے کوئی پوچھے کہ بھارت تو پاکستان کے ساتھ مسلسل70سال سے
دشمنی پر ادھارکھائے ہوئے ہے۔جب پاکستان بنتے ہی بھارت نے کشمیر پرقبضہ
کیااور ہمارے دریاؤں کاپانی بھی بند کرناشروع کر دیا تو کیا اس وقت بھی
حافظ سعیدموجود تھے۔
1965ء میں جب اس بزدل دشمن نے شب کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیااور
لاہور پرقبضے کاپروگرام بنایا تو کیااس وقت بھی حافظ سعید موجود تھے جن کی
وجہ سے بھارت کو پاکستان پر اتناغصہ چڑھا ہوا تھا‘1971ء میں جب بھارت نے
پاکستان کو دوٹکڑے کر دیاتوکیااس وقت بھی اس جنگ کی وجہ حافظ سعید تھے؟ جب
بھارت نے ہر دور میں پاکستان کے ساتھ دشمنی کی انتہاکی‘چاہے حافظ سعید
موجود تھے یانہیں تو پھر آج کیسے کہاجاسکتاہے کہ حافظ سعید ہی پاک بھارت
کشیدگی کی اصل وجہ ہیں اور یہ وجہ دور ہوجائے توپھر بھارت کی پاکستان کے
ساتھ ساری دشمنی ختم ہوجائے گی۔اصل وجہ تو خود بھارت اوراس کے فسطائی
حکمران ہیں۔جب تک یہ موجود ہیں ‘بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کبھی ختم
نہیں ہو سکتی۔جب تک بھارت کشمیر سے آٹھ لاکھ فوج نہیں نکال لیتا‘ کشمیریوں
کو ان کاحق خودارادیت نہیں دے دیتا‘پاکستان کو دریاؤں پر اس کاجائز حق نہیں
دے دیتا اور دیگر مسائل کومنصفانہ طریقے سے حل نہیں کرلیتا‘ بھارت کی
پاکستان کے ساتھ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر ان کی صرف حافظ محمدسعید
d کے ساتھ دشمنی ہوتی تو حافظ صاحب تواپنی ذات کو پہلے ہی کچھ نہیں
سمجھتے۔ان کی ذات اور جان تو پہلے ہی وطن عزیز کے لیے ہے لیکن مسئلہ تو یہ
ہے کہ بھارت کااصل ہدف صرف حافظ سعید نہیں بلکہ اس کا اصل ہدف تو
پوراپاکستان‘پوری فوج اور ہماراایٹمی پروگرام ہے۔ وہ عالمی بدمعاش امریکہ
کے ساتھ مل کر اپنے ناپاک مشن پر کاربند ہے۔ہم اگر بزدل بن کر دشمن کو
مطلوب ہر چیز کو بوجھ سمجھ کر اپنی جان بچانے کے لیے کشتی سے اتارتے رہے تو
دشمن نے ایک دن ہماری کسی جان کو بھی نہیں بخشنالیکن اگرہم سچے مسلمان اور
سچے مومن کاکردار ادا کریں توبظاہر یہ سارے ناموافق حالات ہمارے حق میں بھی
ہوسکتے ہیں۔
1400سال پہلے وقت کی سپرپاورقیصرروم نے مدینہ پرحملہ کا ابھی ارادہ ہی
کیاتھا کہ سالاراعظمe نے روم کی طرف فی الفور لشکر کشی کاحکم دے دیا۔اس وقت
بھی نبی کریمeکو بعض ’’اپنوں‘‘ نے بڑے عقلمندانہ مشورے دیے کہ اتنی بڑی
طاقت کا ہم اتنی کم تعداد اور اتنے کم وسائل کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے
لیکن آپe نے ایسے سب ’’عقلمندوں ‘‘کی رائے کو ردّکردیا اور پھر دنیا نے
دیکھا کہ وقت کی سپرپاور کے لشکرمسلمان لشکریوں کو جنگ پر آمادہ و تیار
دیکھ کر ہی بغیرلڑے الٹے پاؤں بھاگ گئے۔
آج دشمن کو حافظ سعیدd صرف اس لیے بری طرح کھٹکتاہے کہ وہ مسلمانوں میں یہی
جذبے دوبارہ پیدا کررہاہے۔وہ پاکستان کو نسلی‘لسانی اور علاقائی تعصبات سے
نکال کر پاکستان کے قیام کے اصل مقصد لاالٰہ الا اﷲ پرمتحد کررہاہے۔ دشمن
نے ہمارے بلوچ بھائیوں میں محرومیوں کی آگ لگا کر انہیں بھڑکانے کی پوری
کوشش کی لیکن حافظ سعیدd اور ان کی جماعت جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن نے بلوچستان ‘سندھ اور پورے پاکستان میں خدمت خلق کا اس قدر کام
پھیلایا کہ صرف بلوچستان اور تھر میں3500سے زائد واٹرپروجیکٹس (کنویں اور
ہینڈ پمپ )مکمل کیے۔ پورے ملک میں300 سے زائد ایمبولینسوں ‘200 فری
ڈسپنسریوں اور 6ہسپتالوں کاجال بچھایا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اب بڑے بڑے
علیحدگی پسند بلوچ اور سندھی بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے
ہیں۔حالیہ 14ا گست پر بلوچستان کے 50 شہروں سے بلوچوں کی پاکستانی پرچم
اٹھائے ریلیاں نکلیں۔یہاں تک کہ آواران جو بلوچ علیحدگی پسندوں کا گڑھ
تھا‘وہاں سے بھی بڑی بڑی ریلیاں نکلیں‘ دراصل دشمن کو یہی بات چین نہیں
لینے دے رہی کہ پاکستان میں کوئی ایسا بندہ کیوں موجود ہو جوپورے پاکستان
کو رنگ‘زبان اور نسل وعلاقے کی بجائے ایک نظریہ اور ایک کلمے پر اکٹھا کر
دے۔
کاش!ہمارے بقراطوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آجائے کہ حافظ سعید جیسے لوگ
کشتی کا بوجھ نہیں ہوتے‘ ایسے لوگ تو کشتی کے ملاح اور محافظ ہو تے ہیں۔ہم
نے پہلے بھی ایسے ’’بوجھ‘‘ اتارے تو ملک پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوا‘کیاہم
یہ’’بوجھ‘‘ بھی اتارکر پھر دشمن کی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی خواہش
کی تکمیل کریں گے؟
اﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین |