مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘
دودھ اوبال رہا تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور
دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بلا اس کی نشت کے نیچے‘
پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ وقت بلا کسی پریشانی کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں
جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں گے۔
سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی پرسکون زندگی‘ اسے
ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ
چڑھا ہو گا‘ سامنے دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشق ہوتی ہیں‘ جھٹ سے
مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں چھپکلی کا آنا
غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی چھپکلیاں آ گئیں۔ بلا چھپکلیوں کو
برداشت نہیں کرتا وہ چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب
صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے
پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بلا دودھ میں گر گیا۔
ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طاقت سے ٹومی کے سر پر کڑچھا
مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے
والا یہ تشدد کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے سینے میں
اتار دیں۔
مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی لاغر و اپاہج ہو
گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا
بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے
لیے جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی اقتداری طور رہا ہے اور شائد رہے گا۔
ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے سولی چڑھتے رہیں
گے۔ اقتدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔ حال کیا مستقبل قریب میں بھی ان
سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔ قصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی
غلطی پر نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو سدھارنے لی
جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ ہی حقیقت ہے۔ |