قربانی کے بکرے کی، قربانی رنگ لے آئی

 جو شخص بھی قربانی کرتا ہے یا دیتا ہے ، خواہش اس کی یہی ہوتی ہے کہ دیر بدیر مجھ کو اس قربانی کاصلہ ملے۔ بعض قربانیوں کا صلہ جلد اس دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔۔۔۔۔خاص طور پر جب قربانی کا تعلق جمہوریت یا سیاست سے ہو۔ دنیائے سیاست میں ایسے کئی نام ہیں جنہوں نے اصولی سیاست کے لیے قربانیاں دیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تاریخ میں ان سیاست دانوں کو ان کی دی گئی قربانی کی وجہ سے اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کی بوئی ہوئی اصولی سیاست کی فصل کا ثمران کی اولادیں اٹھاتی ہیں۔ عوام کا ان کی طرف لگاؤ اور محبت بھی ان کے آباؤ اجداد کی دی گئی قربانی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن اس مادیت پرستی کے دور میں اور خصوصا ایسے ملک میں جہاں خواندگی کا تناسب خطے کے اکثر ممالک سے کم ہو اور سیاسی شعور بھی نہ ہونے کے برابر ہو، وہاں قربانی دینا عام سیاسی کارکن کا ہی مقدّر ہوتا ہے۔ بعض دفعہ درمیانے درجے کے سیاسی کارکن بھی ، اپنی سیاسی قیادت کے اقتدار کو بچانے کے لیے قربانی کا بکرا بنائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت کا فقدان ہونے کے ساتھ ، جمہوریت کا تسلسل بھی نہیں رہا ہے۔ اس وجہ سے اکثر و بیشتر سیاسی شگوفے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ موجودہ جمہوری دور میں بھی سیاسی شگوفے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ مقتدر اعلی سیاسی قیادت کو ہمہ وقت اپنے اقتدار کی کشتی ڈانوا ڈول نظر آرہی ہوتی ہے کیونکہ عام انتخابات سے قبل کیے گئے، عوام سے وعدے، اقتدار میں آنے کے بعد پورا کرنا ، اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے ان کے لیے پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب ملک کے دیگر مقتدر ادارے یا حزب اختلاف حکومتی حکمت عملی سے نالاں ہوکر ، حکومت کوتنبیہ کرتے ہیں یا حزب اختلاف احتجاج کی دھمکی دیتی ہے تو ان کو سازش کی بو محسوس ہونی شروع ہوجاتی ہے اور وہ مقتدر اداروں اور حزب اختلاف پر تنقید کے دروازے اپنے سیاسی پیادوں کے ذریعے کھول دیتی ہے ۔ دوران تنقید اگر کوئی حماقت سرزد ہوجائے اور کوئی ادارہ ناراض ہوجائے تو ان سیاسی پیادوں کو قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی میڈیا میں ایک وزیر کی برطرفی کے بعد ، یہی بات زبان و زد عا م رہی کہ مذکورہ وزیر کو اعلی سیاسی قیادت نے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے قربانی کا بکرا بنادیا۔ موجودہ جمہوری دور میں ، ماضی قریب میں بھی ایک سیاسی مشیر کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے تھے لیکن اب یہ خبر ان کے لیے خوشی کا پیغام لائی ہوگی کہ ان کی صاحبزدی کو جو خواتین کی نامزد سیٹ پر قومی اسمبلی کی رکن ہیں ، وزارت کے قلمدان سے سرفراز کردیا گیا ہے۔ یہ خبراس اُن سیاسی کارکنوں کے لیے مسحور کن ہے، جن کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ قربانی کے بکرے کی قربانی رنگ لے آئی۔
Syed Muhammad Ishtiaq
About the Author: Syed Muhammad Ishtiaq Read More Articles by Syed Muhammad Ishtiaq: 45 Articles with 35686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.