جماعت اسلامی اور عوامی فاصلے

بڑے عرصے کے بعد میں جماعت اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والے کرپشن مٹاؤ پاکستان بچاؤ پروگرام میں شرکت کے لئے وحدت روڈ لاہور پہنچا۔جب میں پہنچا۔اجتماع گاہ کے اندر کے پروگرام ختم ہوچکے تھے۔لاؤڈ سپیکر پر ریلی میں شرکت کے لئے باہر سٹرک پر آنے کے لئے کہاجارہا تھا۔سٹیج بھیکے وال موڑ پر ترتیب دیاگیا تھا۔انتہائی خوبصورت بینرز پوری سڑک پر لگے ہوئے تھے۔جاتے ہوئے نہر کنارے بھی ہولڈنگز نظر آئے تھے۔میڈیا پر30۔اکتوبر کی ریلی کے لئے اعلانات ہوچکے تھے۔پمفلٹ کے ذریعے بھی شہر بھر میں اطلاعات دی جاچکی تھیں۔ریلی میں پہنچتے ہی دو قریبی دوست ڈاکٹر میاں محمد اکرم صاحب اور ڈاکٹر شاہد محمود صاحب مل گئے۔اس طرح دوستوں سے مل کر دل نے خوش تو ہونا تھا۔ہم چل پھر کر ریلی کا نظارہ کرتے رہے۔بہت سے احباب سے ملاقاتیں بھی جاری رہیں۔جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان چونکہ پورے پنجاب سے آئے تھے۔اس لئے ریلی کو کافی بڑی ریلی قرار دیاجاسکتا ہے۔ڈسپلن جس کے لئے جماعت اول دن سے ہی معروف ہے ۔وہ بھی نظر آرہا تھا۔اجتماع گاہ کے اندر سے ہر علاقے کے لوگ گروپوں کی شکل میں جھنڈے اور بینر پکٹرے نعرے لگاتے دیکھے جارہے تھے۔سڑک کے کافی حصے پر کارکن بڑے منظم انداز سے کھڑے تھے۔سٹیج کے قریب جماعت کی اپنی سیکیورٹی بھی فرائض سرانجام دے رہی تھی۔پنجاب پولیس نے بھی ریلی کو تحفظ دے رکھاتھا۔دہشت گردی کی اس فضا میں کڑی سیکیورٹی کا ہونا بہت ضروری تھا۔سٹیج سے لگنے والے نعرے اور ترانوں نے بھی سماء باندھ رکھاتھا۔پورے ملک میں جو مسٔلہ میڈیا اور سیاست پر چھایا ہواتھا وہ کرپشن تھی۔جناب سراج الحق صاحب نے یہ مسٔلہ کئی ماہ سے اجاگر کیاہواتھا۔مسٔلہ ہے بھی بہت اہم۔ملک کی ترقی اسی سے وابستہ ہے۔30۔اکتوبر چھٹی کا دن تھا۔ریلی ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر لاہور میں تھی۔ریلی میں جس چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی وہ لاہور کے عوام کی بھرپورشرکت کا نہ ہونا تھا۔شریک ہونے والے احباب کے چہرے اور شخصیات بتارہی تھیں اور ببانگ دہل یہ اعلان تھا کہ ہماراتعلق جماعت اسلامی سے ہے۔جماعت اسلامی کی برادر تنظمیں بھی جانی پہچانی ہوتی ہیں۔ان سب تنظیموں کی موجودگی بھی ظاہر تھی۔ہمارے جیسے لوگ جو ایک لمبے عرصے سے تحریک اسلامی کو دیکھتے آرہے ہیں۔ہمیں 50۔سال پہلے کی جماعت اسلامی اور موجودہ جماعت اسلامی میں کوئی بڑا اور نمایاں فرق نظر نہیں آیا۔ایسا لگتا تھا کہ عوام اب بھی جماعت اسلامی کے جلسے میں شرکت کوغیر ضروری سمجھتے ہیں۔دن بھی چھٹی کا۔دکانیں اور دفاتر تمام بند۔ریلی بھی تقریباً لاہور کے درمیانی علاقے میں۔لیکن اس سب کے باوجود عوام نے کوئی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔کیالوگ اب جلسے صرف T.Vپر ہی دیکھتے اور سنتے ہیں۔لیکن جماعت کے علاوہ جب دوسری سیاسی پارٹیاں جلسے کرتی ہیں۔یہ عوام کے سیلاب کہا ں سے آجاتے ہیں؟۔ریلی میں جماعت کے ارکان نے توشرکت لازمی کرنی تھی۔کارکنان نے بھی کافی دلچسپی کا اظہار کیا۔حاضری کافی بہتر ہوگئی تھی۔لیکن تمام رونق جماعت کے صرف اور صرف اپنے لوگوں کی وجہ سے تھی۔جنرل پبلک کا رجحان اب بھی جماعت کی طرف دیکھنے میں نہیں آرہا تھا۔جماعت اسلامی کے امیر محترم جناب سراج الحق خطاب بھی عوامی انداز سے کرتے ہیں۔لیکن لاہور کے عام لوگ جماعت اسلامی کے علاوہ کرپشن کو ناپسند کرنے والے لوگ آخر جلسے میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔اور عام لوگ انتخابات میں ووٹ بھی نہیں ڈالتے۔2013ء کے الیکشن میں بھی جماعت اسلامی لاہور کے امیدواران کو صرف اپنے کارکنوں کے ہی ووٹ ملے۔جماعت کے ذمہ داران نے اپنے بیٹوں کو لوکل الیکشن میں منتخب کروانے کے لئے کہیں شیر کا سہارا لیا اور کہیں بیٹ ہاتھ میں پکڑ کر طاقت کا اظہار کیا۔جماعت اسلامی اب بھی جنرل پبلک میں مقبول نہیں ہورہی۔کم ازکم پنجاب اور سندھ میں تو یہی صورت حال نظر آتی ہے۔جماعت اسلامی اور عام عوام کے درمیان فاصلے کم نہیں ہورہے۔کیا جماعت اسلامی کے منشور میں دیئے ہوئے پروگرام عوام اپنے پروگرام نہیں سمجھتے؟۔گزشتہ50سال کی سیاست نے یہی کچھ ثابت کیا۔1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں اور2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی3۔نشستیں اور وہ بھی دور دراز پہاڑی علاقوں سے۔ان 2۔انتخابات کے نتائج بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست اب جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔ایسے بہت سے عوامل سیاست میں شروع سے موجود ہیں جو جماعت کو آگے نہیں آنے دیتے۔جماعت کو انہیں راستے کے پتھروں کے بارے غور کرنا چاہیئے۔کوئی ایسا پروگرام جو نئی نسل کو اپنی طرف کھینچ سکے۔اس کا ترتیب دیا جانا ضروری ہے۔سیاست کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے۔سیاست سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔جماعت اسلامی اب بھی عوام سے فاصلے پر ہے۔رکن بننے کے لئے اب بھی کئی ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔عام لوگ یہ پابندیاں برداشت ہی نہیں کرسکتے۔اس لئے رکنیت اب بھی محدود ہی ہے۔جماعت اسلامی اب بھی ارکان کے کیڈر کا نام ہے۔جب تک رکن بننے کی پابندیاں قائم ہیں۔جماعت اسلامی مخصوص لوگوں کی تنظیم ہی شمارہو گی۔عوام کی پارٹی نہیں کہلا سکے گی۔اس لئے عوام کو جماعت اسلامی کا منشور اور پروگرام اپنے نہیں لگتے۔کیاجماعت اسلامی کی کوئی لیڈرشپ اس خلیج کا کوئی حل نکال سکتی ہے؟۔شوریٰ جماعت میں شامل نوجوان لوگوں کو اس کا کوئی حل نکالنا چاہیئے۔20۔کروڑ لوگوں کے ملک میں35۔ہزار کی پارٹی سیاسی لہاظ سے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کرسکتی۔اب بھی دیہاتوں کے دیہات خالی پڑے ہیں۔لوگ جماعت اسلامی کو جانتے بھی نہیں۔جو جانتے بھی ہیں وہ ادھر کا رخ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔اب جماعت کو بنے ہوئے75سال ہوچکے ہیں۔جماعت کو سیاسی لہاظ سے عوام کے لئے قابل قبول ہونا چاہیئے تھا۔ہر سادے مسلمان کو جماعت میں شامل ہونے کی اجازت ہونی چاہیئے۔شامل ہونے کا مطلب رکن بننا ہے۔اور فیصلوں میں کردار اداکرنا ہے۔عوامی لیڈر جناب سراج الحق کو پارٹی کو بھی عوامی بنانا چاہیئے۔جماعت کے محدود ارکان کے ساتھ آپ معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔اور ایک ایسی پارٹی جس نے صرف انتخاب کوہی تبدیلی کا طریقہ طے کیا ہواہو۔30۔اکتوبر کی ریلی کو عوامی ریلی نہیں کہاجاسکتا۔یہ صرف جماعت اسلامی کے ورکرز کی ریلی ہی کہلا سکتی ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.