کیا عمران خان کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف2 نومبر کا فائنل میچ جیت پائیں گے

 پاکستانی قوم کے لیئے 1992 میں کرکٹ کا عالمی کپ جیت کر لانے والے مایہ ناز کرکٹر اور کپتان عمران خان کے نام سے کون واقف نہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عمران خان کے ناقابل شکست عزم و حوصلے کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی خداداد صلاحیتوں، خود اعتمادی اور مثالی عزم و حوصلے کے بل بوتے پر پاکستان کے لیئے وہ بڑے بڑے کام کردکھائے ہیں جنہیں کرنا عام طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن آفرین ہے عمران خان پر جس نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پاکستانیت کے جذبے سے سرشار ہوکرنہ صرف پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ کا چیمپئن بنایا بلکہ شوکت خانم میموریل جیسا اعلیٰ درجہ کا فلاحی اسپتال قائم کرکے ملک بھر کے غریب عوام کو کینسر جیسے موضی مرض کے مہنگے ترین علاج و معالجے کی سہولت فراہم کرکے وہ کام کیا جسے کئی بار اقتدار میں آنے والے حکمران نہ کرسکے اسی طرح عمران خان نے نمل یونیورسٹی قائم کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شائقین طلبہ وطالبات کے لیئے بین الاقوامی معیار کا ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈگری لے کر عملی میدان میں قدم رکھنے والوں کو ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ عمران خان نے اپنے چٹان جیسے عزم وحوصلے اور بلا کی خود اعتمادی کی وجہ سے ہمیشہ ہر طرح کے چیلنجوں کا جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ کھیل اور فلاحی سرگرمیوں کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں بھی اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف جیسی انتہائی متحرک اور منظم سیاسی جماعت قائم کرنے کے بعد پاکستانی سیاست میں نہایت تیزرفتاری سے جگہ بنا کر تمام ناقدین کے منہ بند کردیے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پانامہ لیکس میں نوازشریف فیملی کے افراد کے ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد سے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لیئے نااہل قرار دیتے ہوئے جس مستعدی اور چابکدستی سے سیاسی سرگرمیوں ،جلسوں ،جلوسوں اور عوامی احتجاج کے لیئے پاکستانی عوام کو متحرک کیا ہے وہ شاید صرف عمران خان ہی کرسکتاتھا کہ عمران خان نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا ،مسلسل کوشش اور جدوجہد کے ذریعے اپنے جائز مقاصد میں کامیابی حاصل کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کردینے کا کام عمران خان اس سے قبل بھی کئی بار کرچکا ہے اور اب ایک بار پھر وہ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے خلاف پوری قوت اور استقلال کے ساتھ میدان سیاست میں کمر باندھ کر اس ارادے سے کودا ہے کہ جب تک کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا چین سے نہیں بیٹھے گا بلکہ عمران خان نے اپنے تازہ ترین خطابات میں کئی بار اس بات کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہے کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے خلاف جہاد کرتا رہے گا اور اس ملک کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلا کر ہی دم لے گا۔

یہ وہی عمران خان ہے جس نے جب جو ارادہ کیا اسے پورا کرکے دکھایا ،جب یہ پاکستانی کرکٹ کا کپتان تھا تو اس نے پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی با ر بھارت کو بھارت کی سرزمین پر ،انگلینڈ کو انگلینڈ میں اور ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر شکست دے کرایک بہترین کرکٹر اور آل راؤنڈر کپتان کی حیثیت سے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اورآخر کار 1992 میں اس نے پاکستان کے لیئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر دیا جو کہ عالمی کرکٹ میں پاکستان کا اب تک کا پہلا اور آخری ورلڈ کپ ہے۔پاکستان کے لیئے کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے کے بعد عمران خان نے اپنے عروج کے زمانے میں کرکٹ کو خیرباد کہہ کر فلاحی میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی اپنے خلوص ،محنت ،لگن اور جدوجہد کے ذریعے بہت جلد کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے اور شوکت خانم میموریل ہسپتال کی شکل میں پاکستانی عوام کے لیئے ایک ایسا عالمی معیار کا ہسپتال قائم کیا جہاں غریب لوگوں کو کینسر کے علاج کی مفت سہولت فراہم کی جاتی ہے ،اس کے بعد عمران خان نے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی ’’نمل یونیورسٹی ‘‘ کے قیام کی شکل میں وہ کام کردکھایا جو کئی کئی باراقتدار میں آنے والے سیاستدان حکومتی اختیارات اور فنڈز ہونے کے باجود نہ کرسکے۔

کرکٹ اور فلاح وبہبود کے کاموں کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو لوگوں نے بڑا مذاق بنایا کہ ایک کرکٹر کیا سیاست کرے گا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ عمران خان نے اپنے مثالی عزم و حوصلے اور قائدانہ صلاحیت کی وجہ سے بہت جلد سیاست کے میدان میں ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے قیام کے ذریعے اس شان سے قدم رکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں عمران خان کا طوطی بولنے لگا اور میدان سیاست پر کئی عشروں سے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے سیاست دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کیسے ایک کرکٹر نے چند سالوں کی جدوجہد کے بعد ملک گیر سطح پر مقبولیت اور کامیابی حاصل کرکے دو بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے باوجود تیسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے خود کو منواکر ثابت کیا کہ اگر جذبہ سچا ہو اور لیڈر مخلص ہو تو اسے کامیابی حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

اب عمران خان ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے کرپشن میں ملوث ہونے اورپانامہ لیکس میں ان کی فیملی کے افراد کے نام شامل ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے مطالبے کے ساتھ 2 نومبر کو اسلام آباد میں عوامی سمندر لے کر اپنا فائنل سیاسی میچ کھیلنے کے لیئے جارہے ہیں جس پر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور بقول عمران خان کہ انہوں نے جس طرح اپنی زندگی کا آخری کرکٹ میچ ورلڈ کپ کے موقع پر کھیل کر پاکستانی قوم کے لیئے ورلڈ کپ جیتا تھا بالکل اسی طرح وہ نوازشریف کی کرپٹ حکومت کے خلاف اپنا فائنل سیاسی میچ کھیلنے کے لیئے 2 نومبر کو عوام کا سمندر لے کر اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور اس وقت تک وہاں سے نہیں جائیں گے جب تک نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے استعفی ٰ نہیں دیتے یا پھر تلاشی دینے پر راضی نہیں ہوتے ،ان مطالبات سے کم کسی بات پر عمران خان ،نواز شریف کا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف یہ جہاد اور جنگ اپنے لیئے نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے لیئے لڑ رہے ہیں اور وہ خلوص دل کے ساتھ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کو کرپٹ سیاست دانوں کے چنگل سے آزاد کرواکر آنے والی نسلوں کو ایک ایسا پاکستان دے کر جائیں جہاں ایک غریب آدمی کا بچہ بھی عزت اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے ،جہاں عام آدمی بھی باعزت روزگار اور اچھی رہائش اخیتار کرکے ایک ایسے معاشرے میں سانس لے سکے جہاں اسے اپنی جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کے خطرات لاحق نہ ہوں ،جہاں لوگ ٹیکس دیں تو حکمران اس ٹیکس کے پیسے کو عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ کریں ۔جہاں ایسی حقیقی جمہوری حکومت قائم ہو جیسا کہ برطانیہ اور امریکہ میں ہے ،جہاں حکومت اپنی عوام کی سہولت اور آسائش کے لیئے ہر وہ کام کرتی ہے جس کی اس کے عوام کو ضرورت ہوتی ہے ،جہاں کے جمہوری حکمرانوں کرپشن کرنے کے لیئے اقتدار میں نہیں آتے ۔
پاکستانی عوام کی نظریں اب 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے عمران خان کے عوامی احتجاجی دھرنے پر لگی ہوئی ہیں جو نواز شریف ،عمران خان اور پاکستان کے سیاسی مستقبل اور سمت کے تعین کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ یہ وہ فائنل سیاسی میچ ہے جس میں کامیابی حاصل کرنا عمران خان کے لیئے بہت اہم ہے کہ یہ ان کی زندگی کا فائنل سیاسی میچ ہے جس میں فتح کی صورت میں وہ ہیرو بن جائیں گے اور اگر اس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑا تو پھر ان کی سیاسی ساکھ کو خاصہ نقصان پہنچ سکتا ہے ،اسی طرح نواز شریف کی سیاست کے لیئے بھی 2 نومبر کا فائنل میچ بڑا اہم ہے کہ اگر اس میچ میں عمران خان نے انہیں شکست سے دوچار کردیا تو پھر نوازشریف کو ہر صورت میں وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔

عمران خان کی جانب سے 2 نومبر کو اسلام آباد میں کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف فائنل دھرنے کے اعلان کے بعد سے لے کر اب تک سیاست کے میدان میں جو شوروغوغا اور ہل چل مچی ہوئی ہے اور جس طرح کے بھونڈے اقدامات حکومت وقت کی جانب سے کیئے جارہے ہیں اس سے حکومت خود کو مزید پریشانیوں میں پھنسا رہی ہے کہ جمہوری حکومت میں پرامن احتجاج کرنا ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق ہے جس پر قدغن لگا کر نواز حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکی ہے۔عمران خان کے 2 نومبر کو اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے سے 4 دن قبل ہی حکومت نے راولپنڈی اور اسلام آباد کو جس طرح کنٹینرز لگا کر اور ریت کے ڈھیر لگا کر بند کیا گیا اور جس طرح شیخ رشید کے راوالپنڈی میں لال حویلی پر ہونے والے جلسے کو منعقد ہونے سے روکنے کے لیئے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک معصوم بچہ بھی دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ۔اس کے علاوہ خیبر پختون خواہ سے اسلام آباد کی طرف جانے والے اہم راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کو بلاک کرنااورپھر راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف جانے والے موٹروے پر بھی کنٹینرز رکھ کر ریت کے ڈھیر لگا کر ان کو بلاک کردینا نہ صرف عدالتی احکامات کی خلاف ورزی بلکہ عوامی احتجاج کے لیئے دیئے گئے آئینی حقوق کی پامالی بھی ہے لیکن نواز حکومت اور ان کے درباریوں نے 2 نومبر سے چند روز قبل یہ ساری بھونڈی حرکتیں کرکے نہ صرف اپنی سیاسی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ میڈیا کے ذریعے جو کچھ اس دوران ہوا وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں دیکھا گیا ،گزشتہ چند روز کے دوران موٹر وے بند ہونے کی وجہ سے پاک فوج کا ایک کانوائے نقل وحرکت کے سلسلے میں اسلام آباد جانے کے لیئے موٹر وے پہنچا تو نواز حکومت نے اسے کنٹینرز اور ریت ڈال کر مکمل طور پر بند کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس فوجی کانوائے کو متبادل راستہ اختیار کرنا پڑا ،رات کا وقت تھا اندھیرے کی وجہ سے کانوائے میں شامل ایک گاڑی گہری کھائی میں جاگری اور فوج کے دو اعلیٰ افسران شدید زخمی ہوگئے جن میں سے ایک چند لمحوں بعد شہید ہوگیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ گیا ۔اس کے علاوہ تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کی بلاجواز گرفتاریاں اور نظر بندیاں حکومت وقت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود موٹر وے اور دیگر اہم شاہراہوں کو کس کے حکم پر بند کیا گیا اور اس وقت جبکہ سرحدوں پر صورتحال کشیدہ ہے اور ملک حالت جنگ میں ہے اگر بھارت اچانک پاکستان پر حملہ کردیتا ہے تو فوجی نقل وحرکت میں کس قدر مشکلات پیش آسکتی ہیں اس کا اندازہ شاید نہ حکمرانوں کو ہے اور نہ ہی مقتدار اداروں کو ،واضح رہے کہ یہ وہی موٹر وے ہے جس پر کچھ دنوں قبل پاکستانی افواج جنگی طیارے اڑانے کی مشق کررہی تھیں۔حکومت وقت کی جانب سے اس سے زیادہ نااہلی اور کیا ہوسکتی ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ چند روز کے دوران کیا گیا ہے۔ویسے بھی نواز حکومت کو بھارتی جاسوس کل بھوشن یادوکی گرفتاری کے وقت جس طرح سانپ سونگھ گیا تھا اور جس طرح ڈان اخبار میں ایک سیکریٹ اجلاس جس میں اعلیٰ فوجی اور سول قیادت موجود تھی کی اسٹوری شائع ہوئی اور عمران خان کے دھرنے کے اعلان کے بعدمبینہ طور پر جس طرح پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کی صورتحال پیدا کروائی گئی ،یہ سب باتیں نواز حکومت کی برطرفی یا نواز شریف کو وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کے لیئے بہت کافی ہیں۔

آج کی تازہ ترین سیاسی صورتحال کے حوالے سے ایک سوال جوہر پاکستانی کی زبان پر ہے کہ کیا عمران خان کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف2 نومبر کو ہونے والا فائنل میچ جیت پائیں گے ؟ ۔اس سوال کا جواب ہمیں عمران خان کے ماضی اور حال سے مل سکتا ہے کہ اس کا قول وفعل اورکردار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ عمران خان نے جھوٹ ،کرپشن اورمفاد پرستی پر مبنی پاکستان کی روایتی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے اپنے لیئے سچائی اور حب الوطنی پر مبنی ایک مشکل سیاسی راستے کا انتخاب کیا اور ہمت نہ ہارنے کی خداداد صلاحیت کی وجہ سے اپنے عزم و حوصلے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلسل سیاسی جدوجہد کے ذریعے آخر کار انتخابی معرکے میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے اپنے مخالفین اور ناقدین کو حیرت زدہ کردیا ،ایک کامیاب کرکٹر ، کامیاب کپتان، کامیاب فلاحی شخصیت کے بعد عمران خان نے خود کو ایک کامیاب سیاستدان بھی ثابت کردیااورآثا ربتاتے ہیں کہ ماضی میں جس طرح عمران خان نے 1992 میں کرکٹ کے عالمی کپ کا فائنل میچ جیت کر شاندار فتح حاصل کی تھی آج ایک بار پھر اسی جوش و ولولے ،عزم وہمت اور ناقابل شکست جذبے کی وجہ عمران خان 2 نومبر کو کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف اپنا جو فائنل سیاسی میچ کھیلنے نکلا ہے ا س کے نتیجے کے حوالے سے عمران خان کے ماضی کی تمام فتوحات اور اس کے عزم وحوصلے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس بار میدان سیاست کا یہ فائنل میچ عمران خان جیت جائے گا اور شکست آخر کار کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں کا مقدر بنے گی ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے 2 نومبر کے اس احتجاجی دھرنے میں شیخ رشیدکے بعد نامور سیاست دان نبیل گبول نے بھی شریک ہونے کا اعلان کردیا ہے جبکہ کرپشن کے خلاف عمران خان کی جانب سے 2 نومبر کو اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے کی حمایت کرنے والوں میں ق لیگ کے پرویز الہی کے بعد اب پاک سرزمین پارٹی کے چئیر مین مصطفی کمال بھی شامل ہوگئے ہیں جو یقینا عمران خان کے موقف کی سچائی کی دلیل ہے اورخوش آئند بات یہ ہے کہ جس طرح کرپٹ سیاست دانوں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آرہے تھے اب ان کا مقابلہ کرنے کے لیئے عمران خان کا عملی اور اخلاقی طور پرساتھ دینے والوں میں اضافہ ہورہاہے۔ ہمارے نام نہادسیاست دان اور حکمران جمہوریت کا راگ تو الاپتے رہتے ہیں لیکن جمہوری حکمرانوں والا رویہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہوتے وہ جمہوری حکومتوں کی مثالیں تو دیتے ہیں لیکن ان جیسا بننے پر آمادہ نہیں ہوتے ،وہ بدترین جمہوریت کو بھی مارشل لا سے بہتر قرار دیتے ہیں لیکن خود جمہوری اقدار پر گامزن ہونے کے لیئے آمادہ نہیں ہوتے ۔ 27 دسمبر 2007 کوبے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد برسراقتدار آنے والے حکمرانوں سے لے کر آج تک برسر اقتدار رہنے والوں نے مفاد پرستی ،اقربا پروری،کرپشن ،ابن الوقتی ،خود غرضی اور منافقانہ سیاست کی جو شرمناک مثال قائم کی ہے اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاح لفظوں سے لکھا جائے گا ،خاص طور پر آصف زرداری اور نوازشریف نے جس طرح کرپشن کی سیاست کو فروغ دیا اور خود بھی کرپشن کے سنگین معاملات میں ملوث ہوئے اس نے پاکستانی عوام کے سیاست دانوں پر اعتماد کو جس بری طرح مجروح کیا ہے وہ ایک ایسا ناقابل تلافی نقصان ہے جس کا خمیازہ نوازشریف اور آصف زرداری جیسے سیاست دانوں اور ان کے حواریوں اور درباریوں کو ایک طویل عرصہ تک بھگتنا ہوگا کہ یہی قدرت کا قانون ہے اور اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں ،کانٹوں کی فصل بو کر پھول نہیں اگائے جاسکتے ۔

عمران خان جیسے محب وطن ،عوام دوست اور بہادر سیاسی رہنما ہمارے معاشرے کی آبرو ہیں وگرنہ ان جیسے اصول پسند لوگ اگر سیاست میں نہ آئیں تو اقتدار میں آنے والے کرپٹ سیاسست دان پاکستانی عوام کے جسموں پر پہننے کے کپڑے بھی نہ چھوڑیں ،عوام کی باتیں کرکے ،عوام کو اپنے جلسوں میں بلاکر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے والے ،عوام سے نعرے لگوانے اور تالیاں بجوانے والے ،عوام کے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دان ہمارے ملک کا وہ ناسور ہیں جوپاکستان کے پورے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جس کی تکلیف ،درداور پرواہ عمران خان جیسے لوگ نہ کریں تو مفادپرست اور کرپٹ سیاست دان پاکستان کو بھی بیچ کھائیں۔اﷲ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس ملک کو وطن فروش ،مفاد پرست،ابن الوقت اور کرپٹ سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ہمیشہ کے لیئے نجات عطافرمائے (آمین)
کیا عمران خان کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف 2 نومبر کا فائنل میچ جیت پائیں گے !
تحریر : فرید اشرف غازی 01-11-2016
 
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125764 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More