مصلحت پسندی کا شاحسانہ
(Tariq Hussain Butt, UAE)
پاکستان کی تاریخ میں شائد پہلی بار ہو رہا
ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور اس
کے وزیرِ اعلی کے ساتھ دھشت گردوں جیسا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم
میاں محمد نواز شریف کا تعلق بپنجاب سے ہے جبکہ پنجاب کی وزارتِ اعلی پران
کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف جلوہ افروز ہیں لہذا صوبے اور وفاق کی
قیادت ایک ہی خاندان کے اندر ہے اور یوں ملکی سطح پر سارے اہم فیصلے پنجاب
کے ایک ہی خاندان کے ہاتھوں میں ہیں۔ پنجاب کی اہمیت تو قیامِ پاکستان کے
ابتدائی دنوں سے ہی مسلمہ ہے جب پنجاب کے جاگیرداروں نے سیاسی کارکنوں کو
پرے دھکیل کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔مشرقی پاکستان انہی جاگیرداروں کی
ریشہ دوانیوں سے نالاں تھا جو بالآخر پاکستان کی شکست و ریخت پر منتج
ہواتھا۔پارلیمنٹ اور بیوو کریسی میں پنجاب کی بالا دستی کوئی راز نہیں
ہے۔دوسرے صوبوں کوپنجاب سے ہمیشہ شکائیات رہی ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ
ان شکائیات کو پنجاب بالکل غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے ۔مالی
معاملات ہوں یا پھر سیکورٹی کا مسئلہ ہوپنجاب ہمیشہ بالا دست ہو کر سامنے
آتا ہے ۔ان کی نظر میں وفاق کی مضبوطی کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ ان کانعرہ
یہ ہے کہ پنجاب کی مضبوطی پاکستان کی مضبوطی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ
چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔بلوچستان میں تو وقفے وقفے سے
آزادی کی کئی تحریکیں بھی چلیں لیکن انھیں بزور دبا دیا گیا۔عطا اﷲ مینگل
کی منتخب حکومت بھی اسی سوچ کے تحت برخاست کی گئی تھی کیونکہ فوج ایسا
چاہتی تھی لہذا ذولفقار علی بھٹو کے پاس اس حکومت کو برخاست کرنے کے علاوہ
کوئی راستہ نہیں تھا۔اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف نے میاں محمد نواز شریف
کی حکومت کے خلاف کر پشن کے خاتمے کی تحریک شروع کر رکھی ہے جس کا واحد
مقصد میاں حمد نواز شریف کی کرپشن کو طشت از بام کرنا ہے۔ پاناما لیکس میں
شریف خاندان نے جس طرح دولت اکٹھی کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور
شائد یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کا خاندان پانا ما لیکس کی تحقیقات
میں سنجیدہ نہیں ہے۔عمران خان کے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے والی تاریخ
سے ایک روز قبل( یکم نومبر) کو سپریم کورٹ میں پانا ما لیکس پر عدالتی
کاروائی شروع ہو رہی ہے تا کہ تحریکِ انصاف کے بارے میں یہ تا ثر عام کیا
جائے کہ وہ عدالتی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ ملک میں افرا تفری
پھیلا نا اس کا مقصدِ اولین ہے اور دو نومبر کی کال اسی کا شاخسانہ ہے۔،۔
خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلی پرویز خٹک ۳۱ اکتوبر کو ایک بہت بڑے جلوس کے
ساتھ اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھے ۔ان کے اسلام آباد پہنچنے کے سارے
راستے بندکر دئے گئے تھے اور پولیس کی بھاری نفری انھیں روکنے کے لئے سرگرمِ
عمل تھی۔اس جلوس کو اٹک کے پل سے گزرنے، اپنا راستہ بنانے اور کینٹینر
ہٹانے پر چار گھنٹے لگے جو کہ جان جوکھوں کا کام تھا لیکن پختون کارکنوں نے
اپنے عزمِ مصمم سے اسے ممکن بنا دیا۔اٹک پل پر پولیس کی شیلنگ سے کئی لوگ
بے ہوش ہو گے لیکن امتحان کی ان نازک گھڑیوں میں بھی ان کے قدم نہ ڈگمگائے
۔ پولیس نہتے عوام پر شیلنگ کرنے اور لاٹھیاں برسانے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی
تھی کیونکہ خیبر پختونخوہ کے جلوس کو روکنے والی پولیس پنجاب کی پولیس تھی
جس کا واحد مقصد اپنے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔لیکن ابھی تک
یہ طے نہیں ہو سکا کہ خیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلی کا قصور کیا تھا؟ وہ
کونسا قانون ہے جس کی وجہ سے وزیرِ اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کو روکا
جا رہا تھا ؟ کیا کبھی ایسے ہوا ہے کہ وزیرِ اعلی پر گیس کی شیلنگ کی گئی
ہو؟چلیں یہ بھی مان لیا کہ وہ بنی گالہ جانا چاہتے تھے لیکن کیا بنی گالہ
جانا غیر قانونی ہے؟بنی گالہ میں پاکستان کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت
کے قائد عمران خان رہائش پذیر ہیں۔حکومت اگر اپنے ہوش و حواس قائم رکھتی تو
وہ کبھی بھی پرویز خٹک کے جلوس کو اسلام آبادمیں داخل ہونے سے نہ
روکتی۔اگست ۲۰۱۴ میں بھی تو لانگ مارچ ہوا تھا اور اس وقت ریڈ زون میں ۱۲۶
دنوں تک دھرنا بھی ہوا تھا لیکن کیا اس دھرنے سے میاں محمد نواز شریف کی
حکومت رخصت ہو گئی تھی بالکل نہیں کیونکہ حکومتیں سیاسی جلسے جلوسوں سے
نہیں جاتیں بلکہ اس کے لئے انتخابات ہی واحدآپشن ہو تا ہے۔یہ تو حکومت کی
کم عقلی ہے کہ اس نے ایک غیر اہم ایشو کو انتہائی اہم ایشو بنا دیا ہے جس
سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔،۔
عمران خان ذاتی طور پر یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ انھیں جس طرح بنی گالہ
میں نظر بند کیا گیا ہے اسے اس سے خیبر پختونخواہ کے کارکن ہی نکال سکتے
ہیں کیونکہ پنجابیوں نے تو پیٹھ دکھا دی تھی ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ انھوں
نے وزیرِ اعلی پرویز خٹک کو بنی گالہ پہنچنے کی ہدائت کر دی۔میری ذاتی رائے
ہے کہ وزیرِ اعلی پرویز خٹک کا جلوس ہی دو نومبر کی کامیابی کی کلید تھا
۔میرے دوست مرزا عبدالشکو ر کی رائے تھی کہ پنجابی چڑھتے سورج کی پوجا کرتے
ہیں لہذا عمران خان کی دو نومبر کی کال پر وہ اس طرح باہر نہیں نکلیں گے جس
طرح خیبر پختونخواہ کے عوام نکل پڑے ہیں۔راولپنڈی میں عوامی مسلم لیگ کے ۲۸
اکتوبر والے جلسے میں بھی پنجاب کے عوام کی اکثریت نے مذکورہ جلسے میں شرکت
نہیں کی تھی۔اس کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ
عوام ۲۸ اکتوبر کو جلسہ گاہ نہیں پہنچے تھے۔سیاسی کارکنوں کا فرض ہوتا ہے
کہ وہ اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہیں اور کسی بڑے قومی مقصد کی خاطر اپنی
توانائیاں صرف کریں ۔پنجاب کے کارکنوں نے عمران خان کے جلسے جلسوں میں
ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ احتجاجی
مراحل میں اپنے گھروں کے خوبصورت ڈرائنگ روموں میں بیٹھے رہنا ز یادہ پسند
کرتے ہیں ۔شائد وہ اس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جس میں شیلنگ کو برداشت کرنا
یا جیلوں میں جانا ان کیلئے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔وہ جلسے میں بھی جائیں گے
،ووٹ دینے بھی نکلیں گے اور جلسوں کے لئے پیسے بھی لگائیں گے لیکن پولیس کی
لاٹھیوں کے سامنے کھڑا ہونا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ذولفقار علی بھٹو کی
پھانسی کے وقت پی پی پی کے ساتھ بھی ایساہی ہوا تھا،پی پی پی کی ساری فیوڈل
قیادت گھروں میں مقید ہو گئی تھی اور انھوں نے جنرل ضیا الحق کے ساتھ
سمجھوتہ کر لیا تھا۔جہاں تک عام کارکنوں کا تعلق تھا انھوں نے قلعوں کی
تاریخ دیواروں پر اپنی وفاؤں کی داستانیں رقم کی تھیں جبکہ جنرل ضیا الحق
کی کابینہ میں سارے فیوڈل لارڈز اور مذہبی جماعتوں کے قائدین شامل ہو گئے
تھے۔میاں محمد نواز شریف کی معزولی کے وقت بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔مٹھا
ئیوں کی تقسیم کے ساتھ فوجی حکومت کا شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا تھا
۔ریاستی طاقت کے سامنے کھڑا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اور یہ ہر طبقے
کے لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔اس روش سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے
ہیں۔کوفی و شامی کی تاریخی اصطلاعیں اسی تناظر میں ہمارے اد ب کا حصہ
ہیں۔انھوں نے نواسہِ رسول سے جس طرح بے وفائی کی تھی وہ تاریخ کا حصہ ہے
لیکن امامِ عالی مقام حضرت امام حسین نے ہر قسم کی بے وفائی کے باوجود اپنے
اصولوں کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دنیا میں قربانی کی نئی مثال
قائم کی تھی۔یہ کائنات ختم ہو سکتی ہے لیکن امامِ عالی مقام حضرت امام حسین
کی قربانی سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ان کی قربانی تمام زمانوں کے لئے
رہنمائی کا فریضہ ادا کرتی رہے گی۔میری ذاتی رائے ہے کہ عمران خان کو اس
بات کا شدت سے احساس ہو گا کہ انھوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے سیاسی
آزادیوں اور نرمی کی امید رکھ کر خود کو دھوکہ دیا ہے ۔ وہ تو میاں برادران
کی نفسیات کو بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔انھیں علم ہے کہ میاں برادران جب
اقتدار میں ہوتے ہیں تو کسی کے دوست نہیں ہوتے لیکن جب اقتدار سے باہر ہوتے
ہیں تو سب کے دوست ہوتے ہیں۔ان کی اقتدار پسندی میں کسی کو کوئی شک و شبہ
نہیں ہے۔وہ اقتدار کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور تحر یکِ انصاف کے
کارکنوں پر بے رحمانہ لاٹھی چارج،شیلنگ،پکڑ دھکڑ اور کینٹر بلا کنگ کلچر
اسی حد کا تعین کر رہے ہیں۔،۔۔،۔ |
|