رقص و موسیقی
(Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور), Karachi)
گزشتہ روز بتاریخ ۴۲ اکتوبر ۲۰۱۶ کے ایک
اخبار میں دیوانے کی نظر سے ایسی ایک خبر گزری جس نے دیوانے کی دیوانگی کو
انتہا پر پہنچا دیا اور اس کے نتیجے میں دیوانے کو نہ جانے کتنے ماہ بعد
پھر قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا، اس سے قبل فقیر اپنی دیوانگی ظاہر کرے
احباب کی نذر اس خبر کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے:
”رقص اور موسیقی ایک لبرل معاشرے کا حصہ ہے اور ہم اس طرح کی سرگرمیوں کی
حمایت جاری رکھیں گے اور اسکولوں میں ڈانس پر پابندی عائد کرنے ووالے نو
ٹیفیکشن جاری کرنے والوں ذمہ داروں کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائیگی “
یہ بیان ہمارے کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی سیڑھی بنا کر ہمارے سروں پر وزارت کا
تاج پہنے بیٹھے ایک مکروہ دل کا ہے ، بے لاگ بیان ہے، بے لاگ ردعمل لازم ہے،
مگر افسوس کسی کو کیا ملے گا اس خبر پر بات کرنے سے، اوراس معاشرے میں جہاں
موسیقی لوگوں کے لئے ترقی اور اعلی اسٹیٹس کا نشان بن چکی ہے۔ کسی پر کیا
انگلی اٹھائی جائے اور کسی کو کیا الزام دیا جائے ۔۔۔یہ سب جو آج ہمیں
دیکھنے کو مل رہا ہے یہ سب اس وطن عزیز میں بسنے والے ایک ایک شخص کے سیاہ
عمل کا نتیجہ ہی ہے جس نے دجالی نظام کو قائم رکھنے میںمدد کی ہے۔ ووٹ کاسٹ
کرنے کے برے کام میں حصہ لیا گیا ہے۔ پاکستان میں کئی مکتبہ فکر ہیں جو
اپنے اپنے عقیدے کے مطابق تبلیغ کر رہے ہیں ۔ اورتقریبا ہر مکتبہ فکر کے
عالم یہ ہی کہتے ملیں گے کہ جہاں براکام ہو رہا ہے ، وہاں جاناجب اس برائی
کو روکنے کے لئے کوئی عمل نہ کیا جائے یعنی سوائے تماش بین بن کر جانا اور
برائی جس جگہ ہو رہی ہے وہاں مجمع لگانا بھی اس برائی کو سپورٹ کرنے کے
مترادف ہے تو پھر ایسا دجالی نظام ۔۔۔ ایسے انتخابات جن کے نتیجے میں ایسی
سوچ رکھنے والے ہمارے سروں پر مسلط ہو جائیں یا کر دئے جائیں تو کیا پھر
ووٹ کاسٹ کرنا برائی کو پھیلانے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا؟؟ آج ایک شخص ۔۔
جو صاحب اقتدار ہے کہہ رہا ہے کہ اس کام کی حمایت جاری رہے گی جو اللہ اور
اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا اور اس پر بزدلی، ’ یا
حسین ‘ کا نعرہ لگانے والوں کی چپ،اپنی اپنی ذات کی فکر میں مدہوش پاکستان
میں بسنے والے لوگوں کی خاموشی ۔۔۔ کفر کو قائم کرنے اور اس سلسلے کو جاری
رکھنے میں معاون بن چکی ہے۔ اس لئے کسی عالم کو برا کہنے سے قبل، کسی مفتی
کو الزام دینے سے قبل عام کلمہ گو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرے کہ بحیثیت
مسلم وہ کیا کر رہا ہے؟؟؟
ایسی خبر پڑھنے کے بعد اگر کوئی اس کے خلاف بات کرے تو کہا جائے گا کہ وہ
شدت پسند ہے۔ تو آج فقیر سوال کرتا ہے ان لوگوں سے جو بالا بیان کی حمایت
کرتے ہیں اگر رقص و مو سیقی جائز ہوتا تو ہمارے بزرگ اپنی درس گاہوں میں اس
کی تعلیم ضرور لازمی رکھتے۔کوئی موسیقی اور رقص کی ممانعت کرے تو یہ نام
نہاد اسلام سمجھنے والے اس کو شدت پسندقرار دے دیتے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر
میرے آقا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت ان کی کیا رائے ہے جنھوں
نے رقص و موسیقی کی ممانعت فرمائی ہے؟؟؟ اگر رقص و موسیقی کی حمایت کرنے
والے بانی پاکستان محمد علی جناح ؒپر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ وہ سیکولر
پاکستان بنانا چاہتے تھے تو بتائیں کہ کون سی ذات ان کے نزدیک بالا تر ہے
وہ محمد جنھوں نے پاکستان بنایا یا وہ محمد ﷺ جنھوں نے دلوں کو ایمان کی
روشنی سے منور فرمایا۔ فقیر یہ مان بھی لے کہ محمد علی جناح ؒسیکولر
پاکستان بنانا چاہتے تھے تو پھر یہ بتایا جائے کہ ہمیں کس محمد کی بات
ماننے کا حکم ملاہے؟؟؟؟ اس لئے فقیر کہتا ہے کہ اب فیصلہ کر لیا جائے اور
برسوں سے جاری اس بحث سے نکلا جائے کہ محمد علی جناح ؒکیا چاہتے تھے؟؟؟
بلکہ یہ دیکھا جائے کہ بحیثیت مسلم ہمیں کس کی چاہت کو اہمیت دینی ہے۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسکولوں میں یہ لغو اور آلودہ عمل عام کیا جا
رہا ہے تاکہ ہماری نئی نسل مزید سیاہی کی جانب راغب ہو، اور ہماری واپسی کا
سفر طویل سے طویل ہوتا جائے۔ ایسی سازشیں کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایک
منصوبہ وہ بناتے ہیں اور ایک منصوبہ اس نے بنایا ہوا ہے جو ہر شے سے اول
ہے۔ نئی پود جو کلمہ گو ہے وہ قرآن و شریعت کو سیکھے نہ سیکھے اس کو لازم
بنانے میں کوئی دلچسپی نہیںمگر قرآن و سنت و شریعت سے متصادم اعمال ضرور
سیکھے اور یہ سب آئین محترم و مقدس کے نام پر کیا جائے تاکہ اگر کوئی کچھ
کہے بھی تو آئین کی پامالی کا کہہ کر اس کو عدالت کے نوٹس ارسال کئے جا
سکیں۔ان کو آئین کا تو بہت خیال ہے مگر احکام الہی کی کچھ پرواہ نہیں اور
کہتے ہیں کہ الحمداللہ مسلمان ہیں۔ کیسے مسلمان ؟؟؟ جو اللہ کے قرآن سے
بالا اپنے بنائے ہوئے آئین کو سمجھے۔ اس کو اہمیت دے؟؟؟
اسی خبر میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اقتدار اعلی انتہا پسند عناصر سے ڈکٹیشن
نہیں لیں گے اور ترقی پسند ایجنڈا ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
درحقیقت اقتدار اعلی کے ایسے بیانات عوام میں اشتعال پیدا کرتے ہیں اور پھر
اگر کوئی اپنے عمل سے” ممتاز“ ہو گیا تو یہ ہی لوگ جو اشتعال دلاتے ہیں بین
کرنے لگتے ہیں۔ فقیر کی صلاح ہے کہ بیان دینے والے صاحب اپنے بیان کو سامنے
رکھتے ہوئے وضاحت کریں کہ ان کے نزدیک میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بھی کیا شدت پسند تھے؟؟ اور مدینے میں قائم ہونے والی ریاست بھی کیا شدت
پسندی پر مبنی تھی؟؟ نیزپاکستانی خاموش عوام یہ یاد رکھ لے کہ رقص و موسیقی
لبرل معاشر ے کا حصہ ہو گی سو ہوگی مگر ایمان کا حصہ کبھی نہیںتھی اور نہ
ہوگی۔اور اگر صاحب اقتدار کہتے ہیں کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے،
جھوٹ ہے ، شائع کرنے والے اخبار نے جھوٹ منسوب کیا ان کے بیان سے تو پھر
اخبار اور ذمہ دار صحافی کے خلاف قانونی کاروائی لازمی ہو نا چاہیئے۔کڑوی
بات ہے مگر سچ ہے
اس قلب مسلماں پر ثابت ہے قفل سید
قانون ِ بشر کو جو قرآن سمجھتا ہے
میرے رب تو گواہ رہنا ۔۔۔ فقیر نے آواز بلند کر دی ہے۔ اب اس کو مقبول و
منظور و عام کرنا تیری مشیت ہے |
|