رمضان قرآن اور آج کا انسان:۔ آج
کا انسان دکھوں کا ستایا ہوا ہے بے سکونی، بد امنی، ڈپریشن اور طرح طرح کے
ذہنی امراض میں گھرا ہوا ہے انسانیت نے ربانی چشمہ ہدایت سے منہ موڑ کر
دنیا کو نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مادیت پرستی، مفادات اور شہرت و
دولت کی بھوک نے اعلیٰ اقدار تباہ کر دی ہیں (الھٰکم التکاثر) انسان، انسان
کا دشمن بن گیا ہے۔ حسد اور شر نے سکون برباد کر دیا ہے قومیں، قوموں پر
چڑھ دوڑی ہیں۔ خونی جنگیں جاری ہیں۔ آج نفسانیت اور خود غرضی کے ان پجاریوں
کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلام کے اس نظام تربیت کی ضرورت ہے۔ آج انسانیت
پیاسی بھی ہے اور ضرورت مند بھی کہ یہ آب حیات لے کر کوئی اس کے پاس جائے۔
اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے اللہ کے بندوں تک اللہ نورالسموت و الارض کا
نورانی کلام اور پاکیزہ احکام پہنچائے۔ رمضان ایک مثالی مہینہ بن سکتا ہے
اگر امت مسلمہ اس مہینے کو اس شان و شوکت اور آب و تاب کے ساتھ گزارے کہ یہ
شہادت حق کا نمونہ بن جائے۔ دیکھنے والے سر کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ایک ماہ
کی تربیت پا کر کیسی آب وتاب والا انسان اٹھ کھڑا ہوا۔ دیکھنے والے یہ
دیکھیں کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا، افریقہ اور امریکہ و یورپ تک ایک
پاکیزہ فضا ہے ہر طرف نورانیت ہے، محبت ہے، ذکر ہیں، دعائیں ہیں، قرآن پڑھا
جا رہا ہے، سچائی ہے،امانت و دیانت ہے، قتل و غارت، چوری چکاری، لڑائی مار
کٹائی، گالم گلوچ، شہوت و بے حیائی سب کچھ یکسر بند ہو گیا ہے۔ امن کا دور
دورہ ہے۔ پاکیزہ فضائیں ہیں، معطر ہوائیں ہیں۔ انسانی ہمدردی اور اخوت کی
اعلیٰ مثالیں ہیں، افطاریاں کرائی جا رہی ہیں، کوئی بھوکا نہیں، کوئی مجبور
نہیں فطرانہ دیا جا رہا ہے، کپڑے اور راشن تقسیم ہو رہے ہیں، محبتیں بانٹی
جا رہی ہیں کیا رمضان ہے! کیا اس کی روح ہے۔ کیا اعلیٰ تصور ہے کاش ہم یہ
عملی مثالیں قائم کر سکیں۔ عملاً کیا ہو رہا ہے! مسلم معاشروں میں کئی طرح
کے افراد پائے جا رہے ہیں کچھ وہ ہیں جو حقیقت اسلام سے اچھی طرح آگاہ ہیں
رمضان کی اہمیت سمجھتے ہیں اور روزے اسی مثالی طریقے سے رکھتے ہیں جو ان کی
روح ہے اور الحمد للہ اس کے فوائد سمیٹتے ہیں یہ اسلامی معاشرے کی کریم ہیں
مگر قلیل ہیں۔ لیکن اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو رمضان میں روزے کا
اہتمام تو کرتے ہیں، لیکن اس کی روح سے نا آشنا ہیں اور فرمان رسول ﷺ کے
مطابق بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے نہ رب کی رضا، نہ
تربیت، نہ جنت، نہ بے حدو حساب اجر، نہ گناہوں کی معافی بھلا کیوں؟ فرمان
نبی رحمت ﷺ ہے کہ ”جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے
تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔
اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیے
جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہونگے “۔ (متفق علیہ) یعنی روزہ
اور قرآن شفاعت تو کریں گے لیکن شرائط کیا ہیں ’ایمان اور احتساب‘ ایمان تو
خیر کسی بھی عمل کے نافع ہونے کی بنیادی شرط ہے ورنہ تمام نیک اعمال بھی
حیات و دنیا کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں اور جتنا اجر ملنا ہو، جس بھی صورت
میں، وہ اس دنیا میں ایک کافر حاصل کر لیتا ہے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا
کیونکہ ایک کافر ایمان کو حیاتِ دنیا کے عوض بیچ چکا ہوتا ہے۔ اولٰئک لا
خلاق لھم فی الاخرة ( آل عمران :77) ”تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“
جبکہ مومن اپنے جان مال، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے عوض اس کے ہاتھ بیچ
چکا ہوتا ہے۔ ” ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنة
ہ ”حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے
خرید لیے ہیں“ (التوبہ:111) یہی اصل ایمان ہے کہ جو کچھ ہے، اے ربّ !تیرے
لیے اور تیرا ہے۔ جان ہو یا مال۔ جو تیرا حکم ہے وہ سرآنکھوں پر، میری مرضی،
میری خواہش، سب کچھ تیری رضا پر قربان۔ رمضان میں سارا دن اس کا اظہار ہوتا
ہے، کھانا پینا حلال، مگر کھانا نہیں کہ اللہ کا حکم ہے۔ اسی طرح دیگر وہ
تمام کام جن سے منع کیا- کتنا ہی دل چاہے، مگر نہیں کرتے کہ اللہ دیکھ رہا
ہے اور اللہ کے ساتھ عہد و پیمان ہے۔ ’ یہ احتساب کیا ہے؟‘- اپنا جائزہ،-
نیت کا کہ کتنی خالص ہے؟ عمل کتنا درست ہے؟ بھلا کتنے انسان ہوں گے، جو
روزہ رکھ کر اپنا احتساب بھی کرتے ہوں گے۔ جائزہ لیتے ہوں گے کہ کتنے اعضاء
کا روزہ ہے؟ محض بھوک پیاس ہے یا واقعی آنکھوں، کانوں زبان، ہر عضو نے روزہ
رکھا ہے۔ کتنے لوگوں کو یہ حدیث یاد ہوگی کہ ” کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں
روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں، جنہیں رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا“ (ابن
ماجہ) ایسے کون لوگ ہوتے ہیں، ذرا جائزہ تو لیں۔ روزہ رکھا، جھوٹ نہ چھوڑا-
جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال بیچا۔ رمضان آیا۔ مال کی قیمت بڑھا دی۔ ناجائز
منافع خوری شروع کردی۔ عید آرہی ہے، خرچ بڑھ جائے گا‘دودھ میں پانی ملا دیا۔
اچھا دکھا کر گلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کر دے دیا۔ ملازمت کے اوقات میں
ڈنڈی ماری۔ دیر سے آئے، جلدی گھر چلے گئے اور روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب
ہوگئے۔ ٹریفک کے ناکے زیادہ کر دئیے‘ رشوت کے ریٹ بڑھا دئیے‘ رمضان میں تو
عیدی بنانی ہے‘ یہ اور اس طرح کے سارے افعال جھوٹ کی قسمیں ہیں اور روزے کے
اجر کو چاٹ جانے والے ہیں۔ سیر بھر اجر کمایا، من بھر گناہ کر لیے۔ اس لیے
روزے رکھ کر احتساب ضروری ہے کہ اجر حاصل ہو رہا یا ضائع ہو رہا ہے۔ اور یہ
احتساب ہر طبقہ زندگی کے افراد کے لیے ضروری ہے۔ عورت ہے یا مرد، استاد ہوں
یا علما، تاجر ہوں یا ڈاکٹر، حکومتی اہلکار، عدلیہ، سیاستدان، کسان یا
مزدور سب اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی دیانتداری پر نظر ڈالیں۔ اور جائزہ
لیں کہ روزہ کتنا درست روزہ ہے۔ جس کے روزے کے ساتھ جتنا احتساب اور محنت
ہوگی انشاءاللہ اتنا ہی وزنی روزہ ہوگا میزان عمل کو بھاری کرے گا۔ قیام کے
ساتھ بھی احتساب کی شر ط لگائی۔ رمضان کا قیام الیل، سماع قرآن کے ساتھ
مشروط ہے رات کو تراویح پڑھی جاتی ہے اور اسمیں قرآن سنا جاتا ہے قرآن اللہ
تبارک و تعالیٰ کا پاک کلام وہ رحمتوں اور برکتوں کا خزانہ جو دنیا بھر کے
خزانوں سے قیمتی ہے اور جس کے ملنے پر اللہ نے جشن منانے کو کہا۔ یا یھا
الناس قد جآ ءتکم مو عظة من ر بکم و شفا ءلِما فی الصدور لا وھدًی و رحمةُ
للمو منین ہ قل بفضل اﷲ و برحمةِ فبذٰ لک فلیفر حوا ط ھو خیر مما یجمعون ہ
”لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو
دلوں کے امراض کی شفا ہے جو اسے قبول کر لے ان کے لیے راہنمائی اور رحمت ہے
اے نبی کہو کہ ایہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی
اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ
سمیٹ رہے ہیں “ (سورہ یونس 57 تا58) اور رمضان کو تو خیر و برکت کی سعادت
بھی اس قرآن کی وجہ سے ملی کہ اللہ نے یہ پاک کلام اس ماہ میں نازل فرمایا،
اور پھر رب کریم نے رمضان المبارک میں قرآن کی کم از کم ایک مرتبہ مکمل
دہرائی کا انتظام کیا۔ تراویح کی صورت میں کہ اللہ کے بندے سال میں کم از
کم ایک مرتبہ اپنے رب کے احکامات سے پوری طرح با خبر ہو جائیں، وہ ہدایات
دھرا لیں جو ان کے مالک نے زندگی گزارنے کے لیے دی ہیں۔ |