پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد لاک
ڈاؤن عارضی طور پر اختتام کو پہنچا ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا حق
بجانب ہے کہ کسی کی نہ ہار ہوئی ہے نہ کسی کی جیت ۔۔لیکن اسلام آباد لاک
ڈاؤن کئی سوالات ضرور چھوڑ گیا ہے ۔ جس کے جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں وقت
لگے گا ۔ وزیر اعظم نواز شریف و وزیر اعلی شہباز شریف کے کردار پر انگلیاں
اٹھانے کا حق ایک عام آدمی کو بھی ہے ، کیونکہ سربراہ مملکت ہونے کی حیثیت
سے وہ اس بات کے پابند ہیں کہ عوام کی امانت کے بارے میں جواب دیں ، لیکن
ہمارا نام نہاد جمہوری نظام و ادارے اس قابل نہیں ہیں کہ کسی بھی با اثر
شخصیت سے احتساب کا مطالبہ کرسکے۔کوئی بھی ایسا سیاست دان ایسا نہیں ہے جس
نے مفاہمت کے نام پر عوام کے حقوق کو لاک ڈاؤن نہ کیا ہو۔لیکن جب میں
دیکھتا ہوں کہ فاروق اعظم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ کی مثال دی جاتی
ہے کہ ان کی قمیض پر سوال اٹھا کہ آپ کا قد لمبا ہے جو بیت المال کی جانب
سے دیئے گئے کپڑے سے نہیں بن سکتا تھا تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ
کے صاحبزادے نے جواب دیا کہ میں نے اپنی چادر بھی امیر المومنین کو دی تھی
، جس کے بعد اصحابہ رسول ﷺ مطمئن ہوئے ۔ یہ مثال دینا اچھی بات ہے ، لیکن
مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ کیا سوال کرنے والا بھی ایسا ہی پاک دامن ہے
کہ وہ اس بارے میں سوال کرسکے ، جس کے وہ خود گناہ گار ہے۔ دنیا بھر کا بچہ
بچہ جانتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ملک کی کرپٹ ترین برادری ہے ، جو اپنے
مفادات کے تحت یکجا ہوجاتے ہیں تو اپنے مفادات کے تحت میثاق جمہوریت و
میثاق مفاہمت اور این آر او جیسے معاہدے بھی کرلیتی ہے۔ آمریت کا ساتھ بھی
دیتی ، پھر قوم کو ایک جملہ بول کر سب گنگا نہا جاتے ہیں کہ میں قوم سے
معافی مانگتا ہوں ۔موجودہ سیاسی صورتحال میں نقصان صرف عوام کا ہوا ، اس سے
قبل عمران خان کے 126دن کے دھرنے میں بھی نقصان عوام کا ہوا تھا ، ہڑتالیں
ہوتی ہیں تو نقصان عوام کا ہوتا ہے۔مظاہرے ہوتے ہیں تو نقصان عوام کا ہوتا
ہے ، احتجاج ہوتا ہے تو نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ نقصان صرف اور صرف عوام کا
ہوتا ہے۔ہمیں خلافت راشدہ کی مثالیں دیتے وقت اپنے گریبان میں جھانکنے کی
ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ، کیونکہ نام نہاد جمہوری حمام میں سب ننگے
ہیں۔پنجاب نے خیبر پختونخوا کی عوام کو اسلام آباد نہیں جانے دیا ، وہ اپنی
حکمت میں کامیاب رہے کہ تعداد کم ازکم رکھی جائے تاکہ عمران خان مایوس
ہوجائیں ۔ آنسو گیس کی شیلنگ عوام پر نہیں ہوئی بلکہ دو صوبوں کے درمیان
ہوئی ، جہاں میدان جنگ میں ایک جانب پنجاب کا وزیر اعلی تھا تو دوسری جانب
خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی تھا۔اس کے بھیانک نتائج مستقبل میں کیا نکلتے
ہیں ، اﷲ تعالی وہ وقت کبھی نہ لائے ، لیکن خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی نے
بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح کہہ دیا کہ اتنا ظلم تو مقبوضہ کشمیر میں بھی
نہیں ہوتا ، جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ وفاق عمران خان کو بنی گالہ تک محدود
رکھنے میں کامیاب ہوئی ، عمران خان پسپا ہوئی ، پیچھے ہٹ گئے ، اپنے بولرز
تبدیل کرلئے ، کیونکہ جب بولرز کی پٹائی ہو رہی ہو تو کپتان دوسرے بولر کو
وکٹ اڑانے کیلئے لگا دیتا ہے ۔ مسلم لیگ ن اپنی اس عارضی فتح پر یقیناََ
خوش ہوگی ، لیکن یہ سب کچھ تو چار مہینے پہلے بھی ہوسکتا تھا ۔ جب وزیر
اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ٹی آر او کا اختیار بھی سپریم کورٹ کو دے
دیتے ہیں ، لیکن اپوزیشن مصر تھی کہ پہلا احتساب نواز فیملی کا ہوگا ، اس
ایک نقطے پر سات مہینے کی تمام میٹنگز اکارت گئی ۔ جس سپریم کورٹ نے سیاسی
عمل میں مداخلت سے انکار کرتے ہوئے ٹی آر اوز کا معاملہ ایوان پر چھوڑ دیا
تھا ، اسی عدالت نے پانامہ لیکس کا معاملہ اپنے ہاتھوں لیکر دونوں فریقین
کو پچھلی صفوں میں واپس لوٹا دیا ، لیکن کیا اس سے عوام کو فائدہ پہنچا
؟معصوم پچہ جو جان سے گیا اس کا ذمے دار کون ، فوج کا علی افسر حادثے میں
شہید ہوا ، اس کا ذمے دار کون ،پانچ دن پورا پنجاب و پورا پاکستان انتشار
مین رہا اس کا ذمے دار کون؟۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے
درست کہا تھا کہ ٹی وی کیمرے بند کردو ، سب ٹھیک ہوجائے گا ، الیکڑونک
میڈیا کے غیر ذمے دارانہ روئیے اور ریٹنگ کی جنگ میں پاکستانی عوام
فرسٹریشن کا شکار رہی ۔پاکستان نے بھارتی پروگراموں پر پابندی لگا دی ،
اچھا کیا ، لیکن جب پی ٹی وی دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ آج بھی کپاس کو
امریکن سنڈی سے خطرہ ہے۔اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کیساتھ جو کھوٹے
سکے تھے ، اُن ہی کھوٹے سکوں کی اولادیں پاکستان کی98فیصد عوام پر حکومت
کررہی ہیں۔عدالتوں نے بد قسمتی سے ماضی میں کوئی اچھی روایت نہیں رکھی ،
آمریت کو دوائم دیا ،نظریہ ضرورت کو ایجاد کیا ، سوموٹو پروگرام ترجیحی
بنیادوں پر چلایا۔ این آر او کو پہلے توثیق دی ، پھر کالعدم قرار دیا ،
منتخب وزیر اعظم کا جوڈیشنل قتل کیا تو ایک منتخب وزیر اعظم پر آمر کو
فوقیت دی ، اصغر خان کیس کا فیصلہ ابھی تک عدلیہ کے پاس ہے۔سیاست دانوں
سمیت اہم افراد کو خفیہ رقوم کی فراہمی کا مقدمہ اب بھی انصاف کا منتظر ہے،
ماتحت عدالتوں میں بڑے اور سیاسی اثر رسوخ کے حامل شخصیت کو قبل از گرفتاری
مل جاتی ہے تو غریب کو انصاف اس وقت ملتا ہے ، جب اس کی زندگی کے جوانی کی
بہاریں جیل میں ، اور مدعی دو سال قبل انتقال کرجاتا ہے ، غریب جیلوں میں
ایک سماعت کیلئے سالوں انتظار کرتے ہیں ، لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ،
ملز م کا حق تو یہ ہے کہ جب 14دن کے جوڈیشنل ریمانڈ پر ایسے جیل بھیجا جاتا
ہے تو پولیس کا فرض بنتا ہے کہ فرد جرم عائد کرے ، لیکن پولیس سالوں سال
فرد جرم عائد نہیں کرتی ، ملزم کا حق بن جاتا ہے کہ اس کی ضمانت ہو
۔پاکستان کی عدالتوں پر عوام کو اعتبار نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی
نہیں ، اسی احتجاج میں پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اسلام ہائی
کورٹ کے جج کو سیاسی و حکومتی حمایتی قرار دے کر عدم اعتماد کا اظہار کررہے
تھے۔ کیا ضمانت ہے کہ عدالت کے فیصلے پر تمام فریق اتفاق کرلیں ، ہمارا
پورا جوڈیشنل سسٹم خراب ہے ، ماتحت عدالت اگر کسی کو سزا دیتی ہے تو ہائی
کورٹ ایسے معطل کردیتی ہے ، لیکن کیا ماتحت عدالت سے پوچھا گیا کہ انھوں نے
غلط فیصلہ کیوں دیا ؟ ہائی کورٹ کوئی فیصلہ دے دیتی ہے اور سپریم کورٹ اس
کو معطل کردیتی ہے تو کیا ہائی کورٹ سے پوچھا جاتا ہے کہ اس بندے کو 19سال
جیل میں رکھا گیا ، تمھارے غلط فیصلے کی وجہ سے ، کیا اس کی جوانی لوٹا دی
جائے گی ، کیا منتخب وزیر اعظم کی پھانسی کی سزا کے بعد بھٹو دوبارہ زندہ
ہوجائے گا ۔ پاکستان کا کوئی ادارہ قابل اعتماد نہیں ہے ، سب کے اپنے
مفادات ہیں ، اپنی ترجیحات ہیں ، اعتراز احسن سچ کہتے ہیں کہ پہلے فیصلے
بولا کرتے تھے اب جج بولتے ہیں ، عاصمہ جہانگیر بھی ٹھیک کہتی ہیں کہ اگر
ادارے نہیں ہیں تو بند کردو سب کچھ ، من الحیث القوم ہم ایک ملت نہ ہوسکے ،
ایک قوم نہ ہوسکے ، سیاسی دانوں کے ہاتھوں میں چھڑی کے اشارے پر خود کو
ہانکتے رہتے ہیں۔ عوام نہیں ، بھیڑ ، بکری کا ریوڑ لگتا ہے کہ جو چاہے ، جب
چاہے عوام کو ہانک لے ۔ ہم اپنے وطن کا سودا صرف ایک خبر چھاپنے سے ملنے
والی شہرت و مراعات پر کر لیتے ہیں ۔وطن تو ماں ہوتی ہے۔69سال 2600کلومیٹر
سرحد کی حفاظت کرنے والی قوم کو کبھی جہاد کے نام پر اپنی ہی قوم سے لڑایا
گیا ، تو کبھی اسلام کے نام پر ’ گرین چوک سوات ‘ کو خون سے لبریز کرکے
خونی چوک نام رکھ دیا گیا ۔ میں تو وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا کہ گرین چوک
کا کوئی ایک دن ایسا نہیں گذرتا تھا ، جب اُس چوراہے پر کسی انسان کا سر
نہیں لٹکا ہوتا تھا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے ، طالبائزیشن ضروری نہیں کہ
ڈاڑھی رکھنے والے ، شلواریں اونچی رکھنے والے ہی کرتے ہیں ، یہ بھی
طالبائزیشن کی ایک شکل ہے جس میں پش اپس لگا کر اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی پارلیمنٹ میں سب چیخ رہے تھے کہ انتہا
پسند مرگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچ گئے ہیں ، مسلح جھتے اسلام آباد پر قبضہ
کرلیں گے ، کوئی یہ بتا دے کہ سیاسی جماعت کے علاوہ اگر کوئی مذہبی جماعت
یہی عمل کرتی تو کیا میڈیا اسی طرح انھیں مظلوم بتاتا یا پھر سوات کی جعلی
کوڑے مار ویڈیو کی طرح مدارس اور اسلام کے خلاف الیکڑونک میڈیا پروپیگنڈا
کرتا کہ سب سے پہلے پاکستان ، اسلام پسند آجائیں گے۔ نہیں ا نتہا پسند
آجائیں گے ، مرکز پر قبضہ ہوگیا تو پورے پاکستان پر قبضہ ہوگیا ۔
دارالحکومت کہا کیوں جاتا ہے ۔خدارا پاکستان کی عوام کے ساتھ کھیلنا بند
کرو ، پاکستان کو پاکستان رہنے دو ، ایسے مقبوضہ کشمیر کی طرح نہ بناؤ ، کہ
اب تو ہر سیاسی لیڈر کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ ایسا ظلم تو مقبوضہ کشمیر
میں بھی نہیں ہوتا ، جتنا ہماری حکومت کررہی ہے ۔ سیاست کے کاروبار میں
عوام جب تک ایندھن بنتے رہیں گے ، یہی ہوتا رہے گا جو ہوتا ہے۔کھیل ابھی
رکا نہیں ہے ، صرف وقفہ ہے ۔ سیاسی کھیل میں اختتام اور حتمی فیصلہ کبھی
نہیں ہوتا ۔ سیاسی کھیل میں کوئی حرف ، حرف آخر بھی نہیں ہوتا۔
|