پاکستان کا اصل اقتصادی نقشہ
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 40 فیصد، پیپلز پارٹی کے دورمیں 50 فیصد اوراب مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان کی 60 فیصد زیادہ آبادی غربت کی لکیر سےنیچے زندگی گذار رہی ہے۔ ان میں سے 20فیصدروزانہ 200 روپوں سے کم یا بلکل نہیں کماپاتے ہیں اورانکے لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے |
|
وزیر اعظم نواز شریف دعوی کر رہے ہیں
کہ‘پاکستان کا اقتصادی نقشہ مکمل تبدیل ہو چکا ہے’۔ انکے کہنے کا مطلب یہ
کہ انکی تین سالہ حکومت میں پاکستان میں خوشحالی آئی ہے۔کیا آپ ان کی اس
بات سے متفق ہیں؟۔آیئے معلوم کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کا اصل اقتصادی
نقشہ کیا ہے؟۔
اسلام آباد میں ‘‘لاک ڈائون’’ میچ ہونا تو دو نومبر کو تھا لیکن وزیر اعظم
نواز شریف کے بہت ہی ہونہار وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس میچ کو جمرات 27
اکتوبرکو ہی شروع کردیا، پولیس اور دیگر اداروں کی بھرپورماردھاڑ کے ساتھ
یہ میچ ابھی جاری ہی تھا کہ پہلی نومبرکو سپریم کورٹ نے اپنے ایمپائر ہونے
کا اعلان کیا جسکو دونوں فریقوں نے مانا۔عمران خان نے تو‘‘لاک ڈائون’’ میچ
کا نام تبدیل کرکے دو نومبر کو‘یوم تشکر’ مناکر میچ ختم ہونے کا اعلان
کردیا، اب گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں موجود ہے۔ اس دوران ہمارئے محترم
وزیر اعظم منظر سے بلکل غائب رہے، عمران خان کے یوم تشکر کے بعد ان کی سانس
بحال ہوئی تو منظرعام پر آئےاور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ’پاکستان کی ترقی
مخالفین کو ہضم نہیں ہورہی، دھرنا دینے والے پاکستان کو اندھیروں میں
دھکیلنا چاہتے ہیں، پاکستان میں اقتصادی اور دفاعی ترقی مسلم لیگ (ن) کے
دور میں ہوئی۔زرمبادلہ کے ذخائر23 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں، عالمی سرمایہ
کاری کو ترغیب دینے اور مسابقت کا ماحول بنانے کے لئے خصوصی اقتصادی زونز
کا قانون بنایا گیا ہے’۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی فرمارہے ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں حکومت کی
اقتصادی کامیابیوں کے باعث بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری میں
گہری دلچسپی لے رہے ہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ہونیوالی
سرمایہ کاری سے پاکستان میں انفراسٹرکچر میں ترقی کو فروغ حاصل ہوا ہے چین
اور پاکستان کے قریبی تعاون سے خطے میں رابطوں کو مزید فروغ حاصل ہوا
ہے۔وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے پاس حکومت کی اقتصادی کامیابیوں کا پیمانہ
صرف اور صرف چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔ بدقسمتی سے اس منصوبے پر بھی
پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں انگلیاں اٹھا رہی ہیں اور اس کو چین پنجاب
اقتصادی راہداری کا نام دیا جارہا ہے۔یہ دینا اب گلوبل ورلڈ کہلاتی ہے اس
لیے صرف چین کے نام پر اقتصادی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا مناسب نہیں۔وزیر
اعظم اور وزیر خزانہ یہ تو بتارہے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر23 ارب ڈالرز تک
پہنچ چکے ہیں لیکن دونوں یہ نہیں بتاتے کہ ان کے تین سالہ دور حکومت میں
کتنا قرض لیا گیا اور مہنگائی کس رفتار سے بڑھی ہے؟۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے
اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا
کہ’’پاکستان میں مہنگائی دوگنی ہوگئی ہے‘‘۔
اگر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اپنی اقتصادی کامیابیوں کے سراب سےباہر نکل
کردیکھیں تو انکو پتہ چلے گا کہ ستمبر 2016 میں ورلڈاکنامک فورم کے مطابق
عالمی مسابقتی 138 ملکوں میں پاکستان 126ویں سے 122ویں نمبر پر تو
ضرورآگیا ہے لیکن جنوبی ایشیائی ملکوں میں اب بھی پاکستان آخری
نمبرپرہے۔بھارت اس فہرست میں 39ویں، سری لنکا 71ویں اور بنگلہ دیش106ویں
پوزیشن پر ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کی ترقی میں کرپشن، ٹیکسوں کی شرح، حکومتی
عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کو بڑی رکاوٹیں قرار دیا گیا ہے۔ اقوام
متحدہ ہر سال 16 اکتوبر کو یوم خوراک مناتی ہے۔ اس سال ورلڈ فوڈ پروگرام کی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم و بیش نصف پاکستانی مہنگائی میں اضافہ کے باعث
خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گذشتہ ایک سال میں بھوک و افلاس کا شکار افراد
کی تعداد میں35فیصد اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال یہ تعداد 6کروڑ کے لگ بھگ تھی
جو آج بڑھ کر 7کروڑ70لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ غریب آدمی کی قوت خرید
قریباً 50فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کی رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ پاکستان میں30ملین ٹن آٹا (سالانہ) استعمال ہوتا ہے۔ جواب نایاب
یا کمیاب ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایک لاکھ
چوبیس ہزار اسکولوں میں اوسطاً صرف دو استاد ہیں، پچاس ہزار اسکول پینے کے
پانی اور 66ہزار بجلی سے محروم ہیں جبکہ پانچ سے نو سال تک کے32فیصد بچے
اسکول ہی نہیں جاتے۔
گذشتہ ماہ اکتوبر میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے پاکستان کا
دورہ کیا تھا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے غیرمبہم الفاظ میں کہا کہ پاکستان
معاشی بحران سے نکل کردنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگیا ہے،
موجودہ حکومت کی شاندار کامیابی اور پاک چین اقتصادی تعاون بالخصوص اقتصادی
راہداری کو پاکستان کے لیے ترقی اور خوش حالی کا اہم منصوبہ قرار دیا۔تاہم
آی ایم ایف کی سربراہ نے پاکستانی معیشت کی ہموار ترقی میں حائل رکاوٹوں
کی بھی واضح طور پر نشان دہی کی۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کا
تاثر پاکستان میں بین الاقوامی نجی سرمایہ کاری کی آمد میں ایک بڑی رکاوٹ
ہے لہٰذا پاکستان کو کرپشن کے خلاف نتیجہ خیزاحتساب کو یقینی بنانا اور
معاملات میں مکمل شفافیت کا ہتمام کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا
کہنا تھا کہ پاکستان کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کے 65 فیصد کے برابر
ہوگیا ہے اور اس کا حجم 19 ہزار ارب روپے تک جاپہنچا ہے لہٰذا قرضوں کا
بوجھ کم کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت سرمایہ
کاری معیشت کے دس فی صد کے مساوی ہے جبکہ دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں میں یہ
تناسب اٹھارہ فیصد تک ہے۔اسی طرح برآمدات کا تناسب پاکستان میں معیشت کا
دس فیصد جبکہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چالیس فیصد تک ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے مزید کہا کہ’’کرپشن کے باعث سرمایہ کار پاکستان
نہیں آتے اور ہر سال20لاکھ بے روزگاروں کا اضافہ ہورہا ہے اور قرضوں پر
سود ترقیاتی پروگرام سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ بقول جناب حسن نثار‘‘زہریلا ترین
سچ یہ کہ پاکستان کی معیشت کوئی چاہے بھی تو بہتر ہوہی نہیں سکتی کیونکہ جس
برتن کا پیندا ہی نہ ہو اسے سمندر بھی نہیں بھرسکتے اور پاکستان کے اقتصادی
برتن میں تو چھیدوں کے سوا ہے ہی کچھ نہیں’’ ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور
میں 40 فیصد، پیپلز پارٹی کے دورمیں 50 فیصد اوراب مسلم لیگ (ن) کے دور میں
پاکستان کی 60 فیصد زیادہ آبادی غربت کی لکیر سےنیچے زندگی گذار رہی ہے۔
ان میں سے 20فیصدروزانہ 200 روپوں سے کم یا بلکل نہیں کماپاتے ہیں اورانکے
لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔انکے کھانے کا انتظام مختلف این جی او کے
دسترخوانوں سے پورا ہوتا اورجو بہت ہی مجبور اور بے کس ہوتے ہیں وہ اپنا
کھانا ملک میں موجود لاکھوں کوڑوں کے ڈھیروں سے حاصل کرتے ہیں۔ کپڑوں کےلیے
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ بجٹ میں استعمال شدہ کپڑے یا لنڈا بازار کے
کپڑوں پر سیلز ٹیکس کی شرح دس فیصد سے کم کرکے آٹھ فیصدکردی ہے اور اس
کارنامے پر انہوں نے قومی اسمبلی میں فرمائش کرکے تالیاں بھی بجوایں۔
لاکھوں لوگ اسحاق ڈار کو دعایں دئے رہے اور دعاوں میں یہ بھی شامل ہے کہ
اللہ اسحاق ڈار اور انکے بچوں کو بھی یہ کھانے اور کپڑئےنصیب کرئے۔
وزیراعظم نواز ا شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کومنفی صورت حال کو تسلیم
کرنا چاہیےاوربہتر پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے ملک کو ترقی کے راستے پر
ڈالنا چاہئے۔ اب تو الیکٹرک یا ویلڈنگ کا کام سیکھ کر دبئی میں بھی نوکری
نہیں مل رہی ہے، اس لیے کہ شیخوں کے خود حالات خراب ہیں۔یہ بہت مختصر طور
پر‘‘پاکستان کے عوام کا اصل اقتصادی نقشہ’’ ہے۔ آخر میں آپ سے پھر وہی
سوال جو میں نے شروع میں کیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف دعوی کر رہے ہیں
کہ‘پاکستان کا اقتصادی نقشہ مکمل تبدیل ہو چکا ہے’۔کیا آپ ان کی اس بات سے
متفق ہیں؟۔ |
|