مصر میں " اخوان المسلمین" :
ایک طرف امریکہ ا س خطے میں اپناکنٹرول مضبوط کرنے کیلئے کوشاں نظر آرہا
تھا اور دوسری طرف جو گزشتہ سال سے تیونس، مصر،لیبا، شام اور چند اور عرب
ممالک میں امریکہ نواز حکومتوں کے خلاف تحریکوں سے وہاں تبدیلی آنی شروع ہو
گئی تھی اُنکا بھی مقابلہ کرنا تھا۔کیونکہ امریکہ نواز حکومتیں اپنے منطقی
انجام کو پہنچ چکی تھیں۔لہذا یہ سوال پیدا ہو چکا تھا کہ نئی حکومتوں کے
ساتھ کیسی خارجہ پالیسی واضح کی جائے یا اُنکو کیسے کنٹرول کیا جائے کہ
اسرائیل کے مفادات کو کسی قسم کا نقصان نہ ہونے پائے۔یقیناً اُنکے لیئے یہ
انتہائی ضروری بھی تھا۔
خاص طور پر مصر کے" تحریر اسکوائر" پر ایک ایسا اجتماع جو 60 سال بعد اُس
ملک میں جمہوریت کا پیش خیمہ ثابت ہو گیاتھا اورآئندہ کیلئے وہاں کی سب سے
اہم اسلامی سیاسی جماعت" اخوان المسلمین" کو انتہائی کم فرق سے ہی سہی لیکن
حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کروا گیا تھا۔نئیصدر" محمد مرسی "کا انتخاب
بھی ہو گیا تھا اور عرب ممالک نے اُن سے تواقعات بھی وابستہ کر لی
تھیں۔یعنی بہترین تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر مسلمان
برادری کی عزتِ نفس کودُنیا ئے عالم کے سامنے بحال کرنا۔ خاص طور پر وہ
مسلمان جو کسی نہ کسی صورت میں دُنیا کے مختلف ممالک میں ظلم وستم کا شکار
ہیں۔ چاہے کشمیرفلسطین میں ہوں یا مشرقی یورپ یا ایشیاوافریقہ میں ۔ساتھ
میں برما میں ہزاروں مسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور اُنکے گھر جلانے کے
واقعات جن پر عالمِ اسلام خاموش تھا۔
سیاسی تبدیلیاں اور معاشی حالات:
امریکہ جوبیسویں سے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے تن تنہا دُنیا کی واحد
سُپر پاور کی حیثیت سے اہمیت اختیار کرتا جا رہا تھا اور اسرائیل جو اسکا
دستِ راست ہے اس کو اپنی کامیابی سمجھ رہا تھا ،اُنکو2011ء کے آغاز سے جو
سیاسی و دفاعی تبدیلیاں ایشیاوافریقہ میںآتی نظر آرہی تھیں اُن پر مستقبل
میں اُن کا کیا ردِ عمل ہوگا اور کیا ان تبدیلیوں سے اُن کواِن بر اعظموں
میں ماضی کی طرح اثر و رسوخ حاصل ہوگا وہ تو ایک تاریخی سوال کی نوعیت میں
دُنیا کے تھینک ٹینکز کے جائزے میں تھا ۔ لیکن جو اسکے ساتھ سب سے اہم
معاملہ دُنیا کے سامنے آگیا تھا وہ امریکہ کے وہ ا تحادی ممالک یا یورپ کے
وہ ممالک جو اُس وقت انتہائی سنگین معاشی حالات کا سامنا کر رہے تھے اُن کی
عوام کیلئے کیا ایسی پالیسی واضح کی جا رہی تھی کہ وہ معاشی بد حالی سے
بچنے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کا ماضی کی طرح ہی ساتھ دیتے رہیں۔
عالمی معیشت کے گرداب میں جہاں اُس وقت پاکستانی معیشت دیوالیہ پن ہونے کے
در پر نظر آرہی تھی وہاں عالمی معیشت کی تباہی اور یورپی ممالک کو بیل آؤٹ
دینے سے بڑے ممالک اور مالیاتی اداروں کا مالی نظام بھی تہس نہس ہو چکا
تھا۔ لہذا شاید اس ہی لیئے ٹوکیو ، جاپان میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق
کانفرنس میں 80 سے زائد ممالک شرکت کرنے پہنچ گئے تھے ،تاکہ اگر مستقبل میں
کسی بندر بانٹ کی اُمید نظر آئی تو وہ بھی اس وقت کسی ایک چھوٹے سے تعاون
کرنے پر اُس بند ربانٹ میں حصہ حاصل کر لیں۔ کیونکہ ایشیا جو کہ زیادہ تر
ترقی پذیر خطہ سمجھا جاتا ہے اور امریکہ و اتحادی اور آئی۔ایم۔ایف جیسی اور
مالیاتی تنظیموں نے اپنے منصوبوں کے تحت اس خطہ میں جس طرح ترقی پذیر ممالک
کو معاشی معاونت فراہم کی ہے کیاآج اُنکو معاونت کے فوائد حاصل ہو گئے ہیں؟
یا کیا ترقی پذیر ممالک نے اپنے مستقبل کے معاشی حالات کے بارے کوئی منصوبہ
بندی کی ہے؟ اگر امریکہ اور یورپ معاشی مسائل کے بھنور سے نہ نکل پائے تو
وہ قرضہ جات جوترقی پذیر ممالک نے اُن ممالک یا مالی اداروں سے لیئے ہیں
کیسے واپس کر پائیں گے اور آئندہ کی سرمایہ کاری کیلئے کیا طریقہ کار
اپنائیں گے وغیرہ۔ |