مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی !

برصغیرکے منفردشاعر، جون ایلیا کی 8 نومبر 2016کو 14ویں برسی پر ایک خصوصی تحریر

منفرد لب و لہجے کے شاعر، فلسفی، نثر،سوانح نگار اور عالم دانشورجون ایلیا14 دسمبر 1931ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور اور معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے، ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا ۔جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا ۔اسی ماحول کی وجہ سے انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟
 

image

اپنی کتاب ’’ شاید ‘‘کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں۔میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے پیش آئے ۔پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔اردو میں شاعروں کی کوئی کمی نہیں، بلکہ اردو کے مخالفین اس زبان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ صرف شاعری کی زبان ہے، اس میں سائنس و دیگر جدید علوم کا ذخیرہ کم ہے ،ایسے حالات میں شاعروں کے اس ہجوم میں کسی شاعر کا اپنا الگ مقام بنا لینا حیران کن ہے ۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر جس کے وہ خود ی موجد خود ہی خاتم ہیں کی وجہ سے یہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ شاعری میں درشتی اور کھردراہٹ صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو
پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے ۔ خواب وخیال میں رہتے تھے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی خیالوں میں ایک دنیا بسائی تھی، جہاں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو ان باتوں پر بھی غصہ آیا کرتا تھا جن پر کوئی غصہ نہیں کرتا ،ان کے اس غصے کا سبب متحدہ ہندوستان پر انگریز کا قابض،خود کو بے بس پانا بھی ہے ۔ حضرت علی ؓ کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

وہ اپنی جوانی میں کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ جسے بعد میں قبول کر لیا ایلیا نے1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے ۔جس وجہ سے انہیں خاصی پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون ایلیا ایک ادبی رسالے سے بطور مدیر وابستہ تھے، جہاں ان کی ملاقات مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی رہی ہیں۔جون کی زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے ۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
 

image

ان کی نجی زندگی یوں تو ناکام اور کرب انگیز تھی مگر وہ پیدا ہی شاعری کے لیے ہوئے تھے ،لوگ ان سے دیوانہ وار پیار کرتے تھے ۔ جون ایلیا کا پہلا شعری مجموعہ ’’ شاید‘‘ اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے، اس کتاب جیسا پیش لفظ نہ پہلے لکھا گیا نہ بعد میں کسی اور نے لکھا۔ وہ روایت کے رنگ کے رنگ میں نہیں رنگے، ان کا انداز بے حد نرالا ہے ۔ وہ کہتے ہیں۔
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں

ان کی تخلیقات میں درج ذیل شعری مجموعے ’’شاید‘‘ 1991۔’’یعنی‘‘ 2003۔’’گمان‘‘ 2004۔’’لیکن‘‘ 2006۔’’گویا‘‘ 2008۔’’فرنود‘‘ 2012 شائع ہوئے ۔

جون ایلیا کے لکھے انشائیے ،سسپنس ڈائجسٹ، میں برسوں سے شائع ہو رہے ہیں ، اورایک وسیع حلقے میں ذوق و شوق سے پڑھے جا رہے ہیں ۔ ان کا ایک خوبصورت شعر مجھے تو سب سے زیاد ہ پسند ہے ،آپ بھی سنیں۔
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے ۔ انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے 14 سال ہوگئے ہیں ۔

جون کی قبر پر لگے کتبے پر جوشعر درج ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
YOU MAY ALSO LIKE:

Jon Elia was born on December 14, 1931 and died on November 8, 2002. Born in a family of intellectual giants like Rais Amrohvi, Syed Muhammad Taqi and Shafiq Hasan Elia, he was one of the greatest poets Urdu language has ever produced.