مورخ جب بھی چکوال کی سیاسی تاریخ پر روشنی ڈالے گا تو
کبھی بھی چوہدری امیر خان بھٹی کی سیاست کو نظر انداز نہ کر سکے گا بلکہ
یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ چکوال شہر کی سیاست چوہدری امیر خان
بھٹی کی سیاست کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی اور یہ صرف لفظوں تک کہنے کی بات
نہیں بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ امیر خان بھٹی کی سیاست باعمل اور شرافت کی
سیاست کا دُوسرا نام ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ان کے والد چوہدری فیروز خان
بھٹی (مرحوم) بھی باقاعدہ سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ اُس وقت میونسپل کمشنر
منتخب ہوتے تھے۔ اُنہوں نے جتنے بھی الیکشن لڑے سب میں کامیاب ہوئے ماسوائے
ایک الیکشن کے جس میں اُن کو شکست ہوئی۔ چوہدری امیر خان بھٹی نے باقاعدہ
1979ء میں سیاست میں حصہ لیا اور ممبر کونسلر منتخب ہوئے۔ اُس کے بعد 1983ء
میں پہلی بار چیئرمین بلدیہ منتخب ہوئے۔ پھر 1987ء میں دوبارہ چیئرمین
بلدیہ منتخب ہوئے۔ پھر 1991ء میں تیسری بار چیئرمین بلدیہ منتخب ہوئے۔ پھر
1998ء میں چوتھی بار چیئرمین بلدیہ منتخب ہوئے اور پھر 2001ء میں مشرف نے
سسٹم کو تبدیل کیا تو پانچویں بار تحصیل ناظم منتخب ہوئے۔ مسلسل کامیابیاں
سمیٹنے کے بعد 2005ء میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور سیاست اپنے
بیٹے چوہدری علی ناصر بھٹی کو منتقل کر دی۔ چوہدری علی ناصر بھٹی پہلے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بڑا فعال کردار ادا کر رہے تھے لیکن پھر
عمران خان کے 30 اکتوبر کے لاہور کے جلسے کے فوراً بعد تحریک انصاف میں
شمولیت اختیار کر لی اور اس جلسے کے بعد چوہدری علی ناصر بھٹی پہلے شخص ہیں
جو تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ اُن سے تحریک انصاف اور اُن کی سیاست کے
حوالے سے ایک گفتگو کی جو پیش خدمت ہے۔ میں نے چوہدری علی ناصر بھٹی سے
دریافت کیا کہ آپ کے والد اتنی بار چیئرمین بلدیہ منتخب ہوئے تو آپ نے
چکوال شہر کے لئے کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرے والد بھٹی گروپ کے
نام پر سیاست کرتے تھے اور اُن کو بے پناہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اُنہوں نے
اپنے دور میں بے شمار سکول بنوائے، چکوال کی میونسپل لائبریری بنوائی،
چکوال کی بلدیہ کسی دور میں امیر ترین بلدیہ میں شمار ہوتی تھی، کرپشن میرے
والد کے دور میں نہ ہونے کے برابر تھی، کمرشل سرگرمیاں میرے والد کے دور
میں زیادہ ہوتی تھیں، میرے والد جتنا عرصہ چیئرمین رہے وہ دفتر جانے سے
پہلے پورے شہر کا چکر لگاتے تھے اور صفائی کی صورت حال کا بغور معائنہ کرتے
تھے، اُن کے دور میں ثقافتی اور روایتی میلے زیادہ ہوتے تھے جس سے چکوال کی
ثقافت کو اُجاگر کرنے میں مدد ملتی تھی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ مسلم
لیگ (ن) کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں کیوں شامل ہو گئے ہیں؟ انہوں نے جواب
دیا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) کا خلوص نیت سے ساتھ دیا مگر شاید اُن کو ہمارا
وجود قبول نہ تھا، تحریک انصاف میں اس لئے شامل ہوا کیونکہ یہ عوامی جماعت
ہے، میں نے لوکل سیاست کو چھوڑ کر قومی اور مقامی سیاست کو چنا، گذشتہ
الیکشن میں صوبائی الیکشن لڑا اور 33 ہزار ووٹ حاصل کئے یہ بہت بڑی کامیابی
ہے، لوکل باڈی سے نکل کر اسمبلی کی سیاست میں چلے گئے ہیں وہاں پر منتخب
ہونے کے بعد عوام کی بہتر انداز میں خدمت کر سکتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا
کہ کیا آپ کو پی پی 20 کا ٹکٹ مل جائے گا؟ تو اُن کا جواب تھا کہ مجھ سمیت
تمام مقامی رہنما بلامشروط تحریک کے ساتھ شامل ہیں، ٹکٹ ملے یا نا ملے مجھ
اس سے کوئی سروکار نہیں، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ 30 اکتوبر کے جلسے کے
بعد آج تک میں نے کوئی بھی ایسی سرگرمی کو نہیں چھوڑا جو کہ تحریک انصاف نے
کی ہو، میں ہر احتجاج، ہر جلسے اور ہر میٹنگ میں شامل ہوا ہوں۔ میں نے
پوچھا کہ سردار عباس کے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے سے کیا چکوال کی سیاست
یکطرف ہو گئی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا قطعی نہیں ہے، چکوال میں
ہمیشہ سیاست سردار اور اینٹی سردار، پیپلز پارٹی بمقابلہ مسلم لیگ رہا ہے،
اس لئے اُن کے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سردار عباس اگر
بلدیاتی انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) میں چلے جاتے تو نتائج بالکل مختلف
ہوئے، اُن کے جانے سے تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا۔ جب میں نے دریافت کیا کہ
چوہدری ایاز امیر کی تحریک انصاف میں شمولیت کے کتنے امکانات ہیں؟ انہوں نے
جواب دیا کہ سیاست اور صحافت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اُن کو پہلے بھی صحافت
کی وجہ سے سیاست میں مشکلات پیش آئیں اس لئے یہ اُن کے لئے بڑا فیصلہ ہو گا،
جہاں تک میرا خیال ہے کہ وہ صحافت کو اہمیت دیں گے۔ چکوال کے مسائل کے
حوالے سے جب اُن سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ چکوال کے مسائل بے
پناہ ہیں، چکوال میں یونیورسٹی ہونی چاہئے جس کا وعدہ کیا گیا تھا، سیوریج
سسٹم کو بہتر ہونا چاہئے، واٹر سپلائی کا وعدہ کیا گیا تھا اُس کو پورا
ہونا چاہئے، ایک بہترین ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی پورا نہیں
ہوا، مندرہ چکوال روڈ پر بے پناہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اُس کو جلد مکمل
ہونا چاہئے، ملک تنویر اسلم سیتھی کے حلقے کا دورہ کر لیں انہوں نے ریکارڈ
ترقیاتی کام کرائے مگر یہاں چکوال کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا
کہ کیا آپ 2018ء کے انتخابات کے لئے بھرپور تیاری میں ہیں؟ تو انہوں نے
جواب دیا کہ ہماری تیاری مکمل نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ
ہم الیکشن جیت جائیں گے، میرے تمام لوگوں سے رابطے ہیں، کچھ باتیں ہم اوپن
نہیں کرنا چاہتے جب تک ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ این اے 60 میں الیکشن کون لڑے
گا تب تک ہم کچھ باتیں پردہ راز میں رکھیں گے۔ 2018ء کے الیکشن کے حوالے سے
اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ اگر عوام سمجھتی ہے کہ آپ کا ضلع ترقی کر
رہا ہے، یہاں پر تمام کام ٹھیک ہو رہے ہیں، ہسپتال، تھانے اور تعلیم سب کچھ
ٹھیک ہے تو پھر ضرور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر
آپ کے پاس چوائس موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|