پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو قومی لیڈر
بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ المیہ سے کم نہیں۔ ابھی جس نوجوان کو خود سیاسی
تربیت کی ضرورت ہے اسے قوم کا قائد ورہنما بنایا جا رہاہے، اس کے ہاتھ میں
ملک وقوم کی باگ ڈور دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان
پیپلز پارٹی میں اب کتنا دم خم ہے کہ وہ ملک کی قومی پارٹی کے طور پر سامنے
آ سکے گی لیکن جو کوششیں بلاول جیسے سیاسی نا بالغ اور کم علم کو قوم پر
مسلط کرنے کی کی جارہی ہے وہ قابل تشویش ہے۔بلاول بھٹو کی سیاسی بصیرت تو
دور کی بات ابھی اس کی زبان و بیان پر بھی ٹھیک طور پر گرفت نہیں ہے لیکن
اسے پی پی پی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کے ہر ترقی کرنے کی خواہش
رکھنے والے ملک کی لیڈر شپ کا وژنری ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسا لیڈر کے جو
نظریاتی ہو۔ جس کا عالمی سیاسیات اور تاریخ کا وسیع مطالعہ ہو۔ جس کی ملکی
و بین الاقوامی حالات حاضرہ پر گہری نظر ہو۔ جو بدلتے ہوئے حالات کا اداراک
رکھتا ہو، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اب سیاسی پارٹیوں کی قیادت کا
واحد پیمانہ یہ رہ گیا ہے کہ اس لیڈر کے پلے موروثی اعتبار سے کچھ نہ کچھ
ضرور ہو یا اس کے ماضی کی پٹاری میں اس کے پاس کوئی لیگیسی ضرور موجود ہو ۔
پاکستان میں جس کو جتنا بڑا اور بہتر طریقے سے جھوٹ بولنا آتا ہے اور جس کو
جتنی صفائی سے عوام کو دھوکہ دینے اور نعروں کی پیچھے لگانے کا ہنر آتا ہے
وہ پاکستان کا بہترین لیڈر قرار پاتا ہے۔ یہ لیڈر بعد میں اپنے جھوٹ اور
ناکامیوں پر عوام سے بڑی ڈھٹائی سے معذرت بھی کر لیتے ہیں لیکن اپنی اور
اپنے بچوں کی لیڈر شپ بچا لیتے ہیں ۔ نواز شریف جو خود بھی کوئی وسیع
مطالعہ رکھنے والے یا سیاسی اعتبار سے دور اندیش لیڈر نہیں، اب وہ بھی اپنی
بیٹی مریم نواز کو آئندہ کی سیاست کے لئے تیار کر رہے ہیں۔شہباز شریف حمزہ
شریف کو تیار کر رہے ہیں۔ ولی خان نے اسفند یار ولی کی شکل میں اپنا جانشیں
قوم کو دے دیا ہے۔ یہی حال بلوچستان میں لیڈر شپ کا ہے تاہم گزشتہ دنوں قوم
پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو بلوچستان کا وزیراعلی بنا کرعارضی طور پر
ایک خوشگوار تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی دانشمندی اور دور
اندیشی کے اعتبار سے ا پنے آپ کو کوئی قابل ذکر سیاست دان ثابت نہ کر سکے۔
ادھر ایک کرکٹر نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک پارٹی بنا رکھی ہے۔
عمران خان میں بھی عملی اور فکری اعتبار سے ایسی کوئی خوبی نہیں کہ انھیں
ایک درر اندیش یا عقل و فہم کے اعتبار سے ایک قابل قدر لیڈر سمجھا جا سکے
بلکہ ان میں تو کوئی ایسی ایک بھی خوبی نہیں کہ جس کی بنیاد پر انھیں اصل
قومی لیڈر کے تھوڑا بہت بھی قریب قریب سمجھا جا سکے۔بلاول بھٹو زرداری ہوں
یا آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف ہوں یا شہباز شریف یا پھر پاکستان
تحریک انصاف کے عمران خان، ان میں سے کسی ایک کو بھی عقل و فہم اور علم
رکھنے والا یا ملک و قوم کے مستقبل پر نظر رکھنے والا لیڈر قرار نہیں دیا
جا سکتا۔ ان تمام افراد کے لیڈر بننے کی وجہ کچھ اور ہے۔ آصف علی زرداری بے
نظیر بھٹو کے شوہر ہونے کی وجہ سے قومی لیڈر بنے۔ علم و دانش سے ان کی کتنی
دوستی اور قربت ہے یہ سارا پاکستان ہی جانتا ہے۔ اب بلاول بھٹو زرداری کو
بھی اسی بنیاد پر قوم پر مسلط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ وہ بے نظیر
بھٹو کے صاحبزادے ہیں ۔ چونکہ بے نظیر بھٹو کا پس منظر ایک جاگیردارنہ سوچ
کا عکاس تھا لہذا آصف علی زرداری پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور یہی
سوچ اب بلاول بھٹو پر غالب آ رہی ہے۔ بلاول کو اشتعال انگیز تقریریں یاد
کروا کروا کر اور جذباتی نعرے رٹوا رٹوا کر بے نظیر بھٹو کاعکس بنا کر پیش
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف فوجی حکمران اور اپنی
دولت کی وجہ سے لیڈر بنے ۔ یہ کون نہیں جانتا ۔ مگر اب وہ اپنے سیاسی لیگسی
کی وجہ سے لیڈر ہیں اور مستقبل کے لئے اپنی اولاووں کو تیار کر رہے ہیں۔
میاں برادران پاکستان کو اپنی کچھ انڈسٹریوں میں سے ایک سمجھتے ہیں اور وہ
پاکستان کے عوام کو اپنی کسی انڈسٹری کا ملازم سمجھتے ہیں۔ ان برادران کی
سوچ ایک صنعتکار اور بزنس مین سے آگے نہ بڑھ سکی۔ عمران خان اپنی کرکٹ کے
شہرت کی وجہ سے پاکستان میں لیڈر بن گئے ہیں لہذا وہ سارے ملک کو کرکٹ کا
میدان اوراپنے تمام حریفوں کو کرکٹ کی ٹیم سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ آج تک بیٹ
بال، گگلی، یارکر،فاسٹ بالنگ، اسپن بالنگ، رن آؤٹ، کلین بولڈ اور امپائر کی
انگلی سے آگے نہیں بڑھی۔ عمران خان پاکستان کے عوام کو کر کٹ گراؤنڈ میں
بیٹھے تماشائیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے اور امید کرتے ہیں کہ ان کی ہر
بال پر تماشائی شور مچا کر ان کو داد دیں۔ قومی سطح کے مذہبی رہنماؤں کی
اگر بات کی جائے تو ہمارے پاس اب مولانا فضل الرحمن یا سراج الحق جیسے لیڈر
ہیں جو اپنی صلاحیتوں ، علم اور زبان بیان کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں اس کا
فیصلہ کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔مشکل یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا
مسلم لیگ ن یا پاکستان تحریک انصاف یا ملک کی مذہبی جماعتیں، ان تمام
جماعتوں میں نچلی سطح پر بڑے بڑے قابل اور فہم و دانش رکھنے والے لوگ اور
بہت بڑے بڑے اہل علم اور دانشور موجود ہیں کہ جو ملک کی بجا طور پر رہنمائی
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کی آگے نہیں آنے دیا جاتا۔لیکن یہاں یہ
سوال تو موجود ہے کہ یہ اہل علم اور عقل و فہم رکھنے والے لوگ علمی اعتبار
سے اپنے سے کم فہم اور عقل و خرد سے عاری رہنماؤں کے پیچھے پیچھے چلنے پر
کیوں مجبور ہیں؟ کیا یہ صدائے احتجاج بلند نہیں کر سکتے؟ ایسے حالات میں کس
سے کیا امید لگائی جائے کہ ہمارے ملک میں تمام ہی بڑی سیاسی ومذہبی جماعتوں
میں بادشاہتیں قائم ہیں۔ ان جماعتوں کے شاہانہ مزاج سربراہ اپنے بعد اپنے
اپنے ولی عہد مقرر کر کے جاتے ہیں لہذ ا پاکستان میں فوری طور پر کوئی بڑی
تبدیلی یا انقلابی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں۔
|