یہ 19جون 2012ء کی صبح تھی جب اس وقت کے چیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے
وزیرِاعظم کی نااہلی سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر سات
مختلف درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے چھبیس
اپریل کو یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب پایا اور انہیں عدالت
کی برخاستگی تک قید کی سزا سنائی تھی۔یہ فیصلہ وقت کے وزیراعظم کے خلاف
تھا،یہ فیصلہ کرنا نہایت مشکل تھا ،گیلانی ہی وہ وزیراعظم تھے جنہوں نے چیف
جسٹس کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ایک لمحے کے لیے تصور میں لائیے یہ پاکستان
ہے جہاں انصاف حکمرانوں کی دہلیز پر جبکہ غریبوں سے کوسوں دور کھڑا ہوتا
ہے،یہ وہ معاشرہ ہے جہاں منصف فیصلہ مجرم کی حیثیت دیکھ کر لیتے ہیں ،ہمیں
ماننا پڑے گا آج بھی عام آدمی کو انصاف ملنا تو دور کی بات وہ اس ایک لفظ
کے بارے میں سوچ کر ہی کانپ اٹھتا ہے،یہ فیصلہ حکمران پارٹی کی شان میں
کھلم کھلا گستاخی تھی ،یہ وہ وقت تھاجب حکمران اتنے منہ زور ہوچکے تھے کہ
ان کے ایک وزیر نے ایک ٹاک شومیں ’’کرپشن پر ہمارا بھی حق ہے‘‘ کا نعرہ لگا
دیا۔،مگر اس سب کے باوجود گیلانی صاحب کو وزیراعظم کے منصب سے ہاتھ دھونا
پڑا۔کیونکہ سیاست کی بساط کے یہ کرپٹ کھلاڑی بھول چکے تھے کہ وقت کا منصف
زمینی خداؤں سے غریبوں کی ایک ایک پائی کا حساب لیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا،
افتخار چوہدری کی سربراہی میں قائم بنچ نے بدعنوان سابق وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی کو نااہل قرار دے دیا ۔ بے عملی کی خاک جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہونے والی
عدلیہ نے پچھلوں کی طرح صرف یہ انتظار نہیں کیا کہ مسئلہ خود چل کے آئے تو
دیکھیں گے۔ جو مسئلہ خود چل کے نہیں آیا اسے ازخود نوٹس کے ذریعے چلوا دیا
اور جس نے بھی زنجیر ہلائی اسے اندر بلایا گیا۔پچھلے 65 برس میں یہ پہلی
سپریم کورٹ تھی جس کا میڈیا دیوانہ رہا کیونکہ عدالت کی نظر میں کوئی مقدمہ
چھوٹا نہیں تھا ،عدالت کی نظر میں عام آدمی کا مقدمہ بھی خاص تھا۔یہ وہ دور
تھا جب عوام کی آنکھیں امید سے روشن تھیں وہ جانتے تھے اب کوئی وڈیرہ ان پر
ظلم نہیں ڈھا سکتا ،ہمارے قومی اثاثے کوئی اونے پونے دام پر نہیں بیچ
سکتا۔عوام جان چکی تھی اب کوئی ایم پی اے ٹیچر کی تذلیل نہیں کرسکتا ،اب
کوئی جاگیردار استاد کی عزت خاک کر کے کھلے عام نہیں پھر سکتا ،اب جرم کرنے
والے کو اس کے کیے کی سزابھگتنا ہوگی۔
آپ عدلیہ بحالی کے بعد کے سالوں کا جائزہ لیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ
چندسالوں کے دوران جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے نظام کو تبدیل
کردیا، کیونکہ اس سے پہلے یہ صوبائی عدالتی کا پلیٹ فارم جانا جاتا تھا،
لیکن معزول ججوں کی بحالی کی تحریک کے نتیجے میں 2009ء میں ایک مرتبہ پھر
اپنے عہدے پر بحال ہونے کے بعد افتخار چوہدری نے انصاف کی فراہمی کا ایک
الگ طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے عوامی مفاد کے لاتعداد معاملات پر ازخود
نوٹس لیے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جو تاریخی فیصلے لیے ان میں انسانی حقوق سے
متعلق لاپتہ افراد کیس، اسٹل ملز کی نجکاری، این آر او کا نفاذ اور پی سی
او کے تحت 2007ء میں 100 ججوں کو معزول کرنے سے متعلق مقدمات شامل ہیں۔بے
شمار رکاوٹوں،پریشرگروپوں کے بے انتہا پریشر کے باوجود فراہمی انصاف کے لیے
سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی کوششوں کا اعتراف دنیا بھر
نے کیا۔انٹرنیشنل کونسل آف جیورسٹس نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار
محمد چوہدری کوعالمی جیورسٹ ایوارڈدیا۔ یہ ایوارڈ چیف جسٹس افتخار محمد
چوہدری کی طرف سے رکاوٹوں کے باوجود ملک میں فراہمی انصاف کیلئے بلاخوف اور
انتھک اقدامات اور کوششیں کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ۔اب آپ سابق چیف جسٹس
افتخار چوہدری کی زندگی کا یہ منظر دیکھیں بزور طاقت اتارے جانے کے بعد
افتخار چوہدری جب پہلی مرتبہ راولپنڈی بار گئے تو ٹی وی کیمرے صرف چند ہی
تھے۔ استقبال بڑا جاندار تھا مگر جب چیف جسٹس کی تقریر سنوانے کا موقعہ آیا
تو جن چینلز کے پاس لائیو تصویریں دکھانے کی سہولت موجود تھی انھوں نے
کیمرے بند کر دیے۔ چیف جسٹس کا راولپنڈی بار سے پہلا خطاب ٹیلی فون کے
ذریعے سنوایا گیا۔ آج ہمارے میڈیا کے سرخیل اور باغی قسم کے تجزیہ نگاراس
وقت ڈکٹیٹرکے رعب میں دبکے بیٹھے تھے۔عدلیہ بحال ہوئی جسٹس افتخار چوہدری
واپس آئے عدلیہ کو عوام کی عدلیہ بنایا،لوگوں کی دلوں کی دھڑکن بنے،انصاف
کا بول عام کیا،عدلیہ کا افتخار مزید بلند کیا اور مدت ملازمت پوری ہونے پر
2013 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اگر وہ چاہتے تو پرآسائش زندگی
گزار سکتے تھے لیکن اانہوں نے عوام کو ’ملک نوچنے والے گِدھوں‘ سے چھٹکارا
دلانے کے لیے اپنے لیے سیاسی میدان کا انتخاب کیا انہوں نے ’’پاکستان جسٹس
اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ کے نام سے اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ دی،مجھے
اس خبر کا علم ہوا تو بے اختیار ہنس پڑا ،مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی
پارٹی کی حالت یاد آگئی۔حیرانی بھی ہوئی کیونکہ ہمارا سیاسی نظام نیک شہرت
رکھنے والے امیدواروں کا الیکشن میں کیا حال کرتا ہے یہ کسی سے ڈھکا
چھپانہیں،مجھے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گرد کوئی لینڈ
مافیا،جاگیردار،بزنس مین نظر نہیں آیا البتہ کچھ پڑھے لکھے نوجوان جو تعدا
د میں کم ہیں، اچھی شہرت والے وکلاء جو غیر معروف ہیں مگر پھر بھی اس سراب
کو پار کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔یہیں سے اصل جنگ کا آغاز ہو چکا
ہے’’سپائرل آف سائلنس‘‘ تھیوری کو چیلنج کرنے والے افتخار چوہدری اس ملک کو
کھویا ہوا ’’افتخار‘‘ واپس لانے کے لیے سیاسی جدوجہد کے میدان میں آچکے
ہیں،اب فیصلہ کرنے کی باری آپ کی ہے اگر افتخار چوہدری اس کوشش میں ناکام
ٹھہرے تو نقصان ان کا نہیں عوام کا ہوگا اس کے بعد کوئی مخلص،دیانتدار اور
پاکستان سے محبت کرنے والا شخص سیاست کا رخ نہیں کرے گا۔جی ہاں آپ کا ایک
فیصلہ ملک وقوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔۔! |