جماعتوں کے اندر رہتے ہوئے ان کی اصلاح کرنا
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ
اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: اللقاء الهاتفي الأول 25-02-1416۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی ایسے طالبعلم کے بارے میں کیا رائے ہے جو کہ حزبیوں کے ساتھ
میل جول رکھتا ہے بغیر ان پر ان کی حزبیت کا انکار کیے ہوئے الا یہ کہ سری
طور پر کرتاہے، اور نہ ہی ان منہجی مسائل وخرابیوں پر علانیہ بات کرتا ہے
جس پر یہ جماعت گامزن ہے، اس گمان کے ساتھ کہ بلاشبہ اگر وہ ان کے ساتھ
ساتھ رہے گا تو وہ گویا کہ گھر کی اندر سے اصلاح کرنے والا ہوگا، آپ فضیلۃ
الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے، یہ بات بھی علم میں رہے کہ اس قسم کا
نظریہ اور مؤقف اب بہت سے نوجوانوں میں پھیلتا جارہا ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم، إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ
بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل
فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا
عبده ورسوله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم، وبعد:
اس سوال کے جواب میں میں یہ کہوں گا کہ: یہ جو موجودہ زمانے میں قائم سیاسی
تحزب (دھڑے بندی) ہےیہ تفرقے کی وہ بدترین صورت ہے جسے امت اسلامیہ نے جانا
ہے(یعنی جتنے تفرقے امت اسلامیہ نے دیکھے ہیں تاریخ میں یہ ان میں سے سب سے
بدترین قسم ہے)، اور عظیم ترین منکرات میں سے ہے، خصوصاً جبکہ ان احزاب کی
غالب اکثریت فاسد مناہج وعقائد اور گمراہ عبادات پر قائم ہيں۔ اور معتبر
علماء کرام نے اس بدصورت تحزب پر انکار کیا ہے اگرچہ کسی بھی لباس میں ہو،
اگرچہ وہ سیاسی طور پر کتنا ہی اسے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے رہیں،
لیکن حالات وواقعات ا س حزبیت کی حقیقت کا پردہ چاک کر ہی دیتے ہيں، اور ان
کے فاسد اہداف وغرض وغایات کو آشکارا کرہی دیتے ہیں، اگرچہ وہ اس پر یہ
کہتے ہوئے پردہ ڈالنا چاہیں کہ ہم تو اسلام کے لیے ہی کام کرتے ہيں، ہم تو
اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہی برسرپیکار ہیں۔ خصوصاً جب ان کی کہیں حکومت
یا حکومتیں قائم ہوجاتی ہيں تو یہ کوئی کارنامے انجام نہيں دیتیں سوائے
اسلام کے انہدام کے۔ اس کی دلیل وبرہان کے لیے ان کی برائیوں میں سے ایک ہی
کافی ہے کہ یہ اپنی بہت سی کانفرنسوں میں وحدت ادیان کی طرف دعوت دیتی ہيں،
اور ان کے انحراف پر دلالت کرنے والے دلائل وبراہین میں سے یہی کافی ہے کہ
یہ ان موجودہ احزاب وجماعتوں کا رد نہیں کرتےجو اسلام کے خلاف اس عظیم
انہدام پر گامزن ہيں، یہ نہ صرف ان رسوا کن مواقف پر چلتے ہيں بلکہ الٹا جو
اس انہدام میں سرگرم ہیں ان کی مدح وتعریف کرتے اور دفاع کرتے ہیں۔
پس ہر سمجھدار مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رہےاور پوری امت کو اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامنے کی دعوت دے۔ اور امت کے
افراد کو چاہیے کہ وہ ان حزبیات میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اور جو بعض
لوگ یہ حرکت کرتے ہيں اس حجت کے ساتھ کہ وہ ان کے اندر رہ کر اندر سے اصلاح
کریں گے، تو انہیں جاننا چاہیے کہ جو یہ واضح غلط کہتے اور غلط کرتے ہيں اس
کا ادراک بھی بہت عقل منداورتجربے والے ہی کرسکتے ہيں جو اس بات کو اچھی
طرح سے جان چکے ہيں کہ یہ احزاب ہٹ دہرمی پر مبنی اہواء اور بدترین تعصب پر
قائم ہیں جو انہیں باطل پر عناد واصرار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور یہ تو
جیسا کہ ہم نے نہایت قریب سے ان کا تجربہ کیا ہے اپنے تعصب اور ہویٰ پرستی
میں اہل مذاہب (مقلدین) سےبھی بڑھ کر متعصب ہیں چاہے عقائد سے متعلق اہل
مذاہب ہیں، یا فکری یا صوفیہ، اور یہ (حزبی جماعتی) لوگ دین داری،
دیانتداری اورسچائی میں ان لوگوں سے بھی گئے گزرے ہيں، اور تمام لوگوں سے
بڑھ کر حق کی جانب رجوع کرنے سے دور بھاگنے والے ہيں۔
چناچہ میں اس شخص کو جس کا آپ نے ذکر کیا اور اس جیسے دوسروں کو یہ نصیحت
کرتا ہوں اگر وہ واقعی دین کی مصلحت کے خواہاں ہیں، کہ وہ ان میں سے نکل
جائيں اور اس تعصب کو اٹھا پھینکیں۔ پھر جو صحیح طریقہ ہے ان کو نصیحت کرنے
کا وہ یہ ہے کہ ان کے سامنے حق بات کی وضاحت کی جائے اس حزب سے باہر باہر
رہتے ہوئے ناکہ اس کے اندر رہتے ہوئے (اصلاح کرنا)، اور ساتھ ہی ان داعیان
حق کے ساتھ تعاون کریں جو ان سیاسی حزبیات وغیرہ سے دور ہیں۔ تب یہ نیکی
اور تقویٰ پر تعاون کہلائےگا اور عام مسلمانوں کے لیے خیرخواہی تصور ہوگا۔
ہم اللہ تعالی سے دنیا وآخرت میں ہدایت وتوفیق کا سوال کرتے ہيں۔ |
|