کیسے کیسے باپ

روٹی گول نہ پکا پانے کی پاداش میں اپنے باپ کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اُتار دی جانے والی انیقہ خالد کو یہ دنیا چھوڑےہوئے ایک برس بیت چکا ہے ۔ چند روز قبل اسکے باپ کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے ۔ شاید انیقہ کو معلوم ہو چکا ہو کہ عنقریب اسکا باپ بھی دنیا چھوڑنے والا ہے ۔ شاید وہ بےچینی سے اپنے باپ کی آمد کا انتظار کر رہی ہو ۔ شاید اس ایک برس میں اس نے وہاں بہت اچھی گول گول سنہری روٹیاں بنانا سیکھ لیا ہو کیونکہ اسے سیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس نے اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر وہاں فردوس بریں میں بالکل صحیح روٹی بنانا سیکھنے کے لئے خدا سے خصوصی بندوبست کی فرمائش منوا لی ہو ۔ اب وہ اس فن میں طاق ہو چکی ہو اور اپنے باپ کی ناراضگی کو دور کرنے کے قابل ہو چکی ہو ۔ مگر جس جگہ وہ اب رہتی ہے وہاں ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ شاید خود اس کا باپ بھی نہیں ۔ یہ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد انیقہ کا باپ سیدھا اس کے پاس پہنچے گا یا کچھ عرصہ کہیں اور گذارنے کے بعد ؟ بےشک ہم لوگ اس بات کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں ۔
 
بد قسمتی سے سارے ہی باپ ایسے نہیں ہوتے جو اپنی ننھی پری کے ہاتھوں بنی ہوئی پہلے پہل کی کچھ کچی اور کچھ جلی ہوئی اور کسی مقبوضہ ملک کا نقشہ بنی ہوئی روٹی کو دیکھ کر نہال ہو جاتے ہیں ان کا بس نہیں چلتا کہ بچی کے ایجاد کردہ عجوبے کو منہ سے پہلے اپنی آنکھوں سے لگا لیں ۔ وہ دستر خوان پر دھری ہر نعمت سے منہ موڑ کر اس روٹی کو کسی تبرک کی طرح تناول کرتے ہیں ۔ اپنی شہزادی کی اس کوشش کو سراہتے ہیں اسکا حوصلہ بڑھاتے ہیں ساری زندگی اس جلی ہوئی روٹی سے ان کی یادوں میں چراغاں رہتا ہے ۔

مگر کچھ باپ انیقہ کے باپ جیسے بھی ہوتے ہیں اور کچھ اس سے ملتے جلتے ۔ میری ایک کزن نے اپنی بڑی بیٹی کی عمر تیرہ چودہ سال ہونے پر اسے سکھانے کی غرض سے روٹی پکانے پر لگایا ۔ اور بچی کے باپ نے اس کے ہاتھ کی بنی کچی پکی جلی بھنی ٹیڑھی میڑھی روٹی کو منہ تو کیا ہاتھ بھی لگانے سے انکار کر دیا ۔ اور میری کزن کو بولا بےشک اس سے روٹی پکواؤ اور تم سب کھاؤ مگر میری دو روٹیاں تم خود ڈال دیا کرو ۔ اگر پھر ایسی روٹی میرے آگے رکھی تو اٹھا کر پھینک دوں گا ۔

بات صرف روٹی تک ہی محدود نہیں ہے ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے باپ ہیں جو اپنی بیٹیوں کے لئے کسی جلاد سے کم نہیں ۔ باپ بھائیوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم کی جانے والی بیٹیوں میں کتنی ایسی تھیں جو روٹی بنانا نہیں جانتی تھیں؟
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854581 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.