اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید‘
بہت ساری تشبیہات کے استعمال کے باوجود‘ بات نہ بن پائے گی۔ اسے زمین پر
اللہ کا تخلیق کردہ ماسٹر پیس کہنا‘ کسی طرح غلط نہ ہو گا۔ لباس کے اندر
بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں‘ جب لباس
کے اندر جھانکتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور
ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ تو سر پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔
جب تک یہ جاننے کا موقع ملتا ہے‘ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد‘
پھسی کو پھڑکن کیسا ہی باقی رہ جاتا ہے۔
اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر‘ مجھے اصل
مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں کچھ دیر بعد‘ اپنے آپے میں آ
گیا۔ میں قریب چلا گیا‘ سلام بلایا۔ اس نے بلا اوپر دیکھے‘ سلام کا تقریبا
سا جواب دیا۔ میں نے اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے ملائم اور پریم بھرے لہجے
میں عرض کیا‘ میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا ہوں‘ اس ذیل میں
چند ایک سوالات کے جواب درکار ہیں۔ اس نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب
دیا: میں بہت مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔
جی میڈم‘ آپ کا نام
تانیہ
آپ مقامی ہیں یا باہر سے تشریف لائی ہیں
کوئی ڈھنگ کا اور متعلق سوال پوچھو
بہتر میڈم‘ پڑھائی سے وابستہ ہیں
ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں
اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا
ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔
اس کے بعد کیا کرنا ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا کماؤں گی۔
میرا خیال تھا کہ کہے گی‘ انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔ خوب صورت لباس اور
خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو شیطان‘ میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔
میرے سوچ کا شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ میں
نے سوچا‘ یہ کیسا انسان سا پتلا ہے جو من میں اپنی ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں
رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ کے لیے ہو گیا ہے۔
پھر میں نے سوچا‘ اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ اور بینک
بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ قبر میں تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر
جانے کے بعد‘ پیار کرنے والوں کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ لاش کے لیے کون بےکار
میں وقت ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تقسیم پر‘ سگے
بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر
پر بھولے سے بھی‘ چار پھول چڑھانے کی توفیق نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے
لی‘ پیسے بھی کما لیے‘ لیکن آگہی اس کا مقدر نہ بن سکی۔ حسین گوشت پوست کے
پیچھے اتنی پوشیدہ غلاظت۔ توبہ بھی میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں
بولوں گا‘ میں تو اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر‘ اسے جیون ساتھی بنانے
کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر اللہ کی عنایت شامل نہ ہوتی‘ میں تو مارا گیا تھا۔
|